غزل
ذہن میں اب رہا نہیں کچھ بھی
اس لیے سوچتا نہیں کچھ بھی
کب سے کیا کیا بنا رہا ہوں میں
پر ابھی تک بنا نہیں کچھ بھی
سب نے مجھ پر بہت ترس کھایا
پر کسی نے دیا نہیں کچھ بھی
بے سوالی کی لذتیں بھی گئیں
کاش میں مانگتا نہیں کچھ بھی
روح کو چیخنا سکھاتا ہے
عشق کچھ بولتا نہیں کچھ بھی
واہمے واہمے ہی ہوتے ہیں
آج تک تو ہوا نہیں کچھ بھی
چشم و لب زلف اور بدن بن عشق
ان کو میں مانتا نہیں کچھ بھی
زندگی کامیاب گزرے گی
دوست سے مانگنا نہیں کچھ بھی
محسن اسرار