رات دن سانحوں کی زد میں تھا
شہرسب حادثوں کی زد میں تھا
منزلوں کا سراغ کیا پاتے
کہ سفر راستوں کی زد میں تھا
تھیں سیاست کی بھی عجب چالیں
کھیل سب سازشوں کی زد میں تھا
روح کے زخم ہی نہ تھے ناسور
جسم بھی کرچیوں کی زد میں تھا
عکس در عکس بٹ گیا تھا وجود
اس قدر آئینوں کی زد میں تھا
کتنا مختار ہوکے بھی انساں
کتنی مجبوریوں کی زد میں تھا
یونہی پیہم ہے روزوشب کا نظام
وقت بھی گردشوں کی زد میں تھا
ایک انساں ہزار پیمانے
آدمی فلسفوں کی زد میں تھا
سرپہ اک سائباں تھا بوسیدہ
اور گھر بارشوں کی زد میں تھا
نزہت عباسی