راحت و رنج سے خالی ہے مکاں
کس کے ہونے کا سوالی ہے مکاں
جس کے ہونے سے یقیں تھا اس کا
وہ نہیں ہے تو خیالی ہے مکاں
آ کے بیٹھے ہیں پرندے شب کے
شجرِ خواب کی ڈالی ہے مکاں
راحت افزا ہے سکونت اس کی
دل ہمارا بھی مثالی ہے مکاں
خوں ٹپکتا ہے چھتوں سے اس کی
لوگ کہتے ہیں جلالی ہے مکاں
عتیق احمد جیلانی