رازداں ہم نے بنایا آپ کو
دل کی مسند پر بٹھایا آپ کو
دھیرے دھیرے آن پہنچے روح میں
یوں رگ ِ جاں میں بسایا آپ کو
کہکشاں لا کر بچھا دی صحن میں
جب کبھی گھر میں بلایا آپ کو
جرأت ِ اظہار ہم سے چھِن گئی
جب بھی حالِ دل سنایا آپ کو
زہر میں ڈوبے ہوئے ہیں جسم و جاں
آستیں میں کیوں چھپایا آپ کو
ہر ادا پہ شاعری کرتے رہے
ہر غزل میں گنگنایا آپ کو
ہم سا سادہ لوح بھی کوئی نہ ہو
خود رقیبوں سے ملایا آپ کو
عکس اپنا ہی عیاں ہونے لگا
آئینہ جب بھی دکھایا آپ کو
جس نے ہم کو عشق کی سوغات دی
بے مہر اس نے بنایا آپ کو
ایک میرا در ملے گا بس کھلا
گردشوں نے جب ستایا آپ کو
سید الطاف بخاری