راز دل کا یوں کھلا قرطاس پر
ایک آنسو گر گیا قرطاس پر
اک بھرم تھا یوں زباں نہ کھل سکی
اور سب کچھ کہہ دیا قرطاس پر
سچ کو دیکھا لفظ گونگے ہو گئے
کس طرح دیتی صدا قرطاس پر
تھیں ملاقاتیں بھی کاغذ کی طرح
ہو رہا ہے فاصلہ قرطاس پر
میری رودادِ غمِ الفت سنی
اور قلم بھی رو دیا قرطاس پر
آنے والوں کے جگر چھلنی نہ ہوں
لکھ دو ایسا فلسفہ قرطاس پر
لفظ صدیوں سے رہے نوحہ کنعاں
وقت سے میں نے کہا قرطاس پر
خامشی کی چیخ تھی لفظوں میں اور
درد نے سب کہہ دیا قرطاس پر
خود لکھا اور خود ہی خود کو پڑھ لیا
مل گیا ہے راستہ قرطاس پر
بس حقیقت تھی، قلم تھا ہاتھ میں
ہوگیا سب آئینہ قرطاس پر
تونے بھی دنیا سے منہ موڑا نسیم
اور قلم بھی چل دیا قرطاس پر
نسیم بیگم نسیم