loader image

MOJ E SUKHAN

راشد خان عاشر: ایک چپ کی چیخ، ایک آنسو کی زباں

راشد خان عاشر: ایک چپ کی چیخ، ایک آنسو کی زباں

*** انجم سلیمی ***

ڈیرہ غازی خاں سے نوجوان شاعر راشد خان عاشر کا کلام پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کسی خاموش، سنسان کمرے میں دل کی دھڑکن بلند آواز میں بولنے لگے۔ اس کی شاعری محض الفاظ کی ترتیب نہیں، جذبات کی ترتیب ہے۔ وہ دکھ کو نظم کرتا ہے، اور تنہائی کو قافیہ بنا دیتا ہے۔ اس کا ہر شعر ایک یاد ہے، ایک کرب ہے، اور ایک مکمل زندگی کی تصویر۔
یونہی بے فیض سی بے کار سی دنیا میں ہمیں
جینا پڑتا ہے کہ ماؤں کے کلیجے نہ پھٹیں
یہ شعر صرف مامتا کی عظمت کا بیان نہیں، بلکہ ایک مکمل نسل کا دکھ ہے جو خود کو فنا کر کے بھی ماؤں کے کلیجے بچانا چاہتی ہے۔
عاشر کی شاعری میں ماں کی موجودگی، خدا کی خامشی، اور عاشق کی بے بسی تینوں مل کر ایک ایسا مثلث بناتی ہیں جس کے بیچ قاری کی اپنی روح بھٹکتی رہتی ہے۔ اُس کی آواز کہیں آہ جیسی ہے اور کہیں سوال جیسی — جیسے:
بعض اوقات خدا میری طرف دیکھتا ہے
یہ صرف محبوب کی بےنیازی کا بیان نہیں، یہ ایک صوفیانہ گمان ہے — کہ خدا بھی کسی دن کسی محرومی کی مٹی میں جھانک لیتا ہے۔
عاشر کے ہاں دکھ کی مختلف سطحیں ہیں: ذاتی، معاشرتی، اور روحانی۔ وہ جس سہل بیانی سے پیچیدہ جذبات کو رقم کرتا ہے، وہ اسے اپنے ہم عصر نوجوان شاعروں میں ممتاز بناتی ہے۔ مثلاً:
روز اُس شخص کا اک حکم نیا ملتا تھا
ہم جسے پیار سمجھتے تھے وہ مزدوری تھی
یہاں محبت کی مشقت کو اس شدت سے بیان کیا گیا ہے کہ قاری چونک جاتا ہے۔ اس کی شاعری میں ذاتی تجربے کی صداقت ہے، مگر وہ فرد سے بڑھ کر پورے عہد کے جذبات کو زبان دیتا ہے۔
اور وہ کربلا کے استعارے میں محبت کی مستقل اذیت کو یوں پیش کرتا ہے:
ایسے آتے ہیں مری سمت ترے چھوڑے ہوئے
جیسے کربل میں عزادار چلے آتے ہیں
یہ غم کی تقدیس ہے، جو راشد عاشر کے شعروں کو عام محبوب کی یاد سے نکال کر ایک بلند تر سطح پر لے جاتی ہے۔ وہ ہر شعر میں کوئی نیا زاویہ کھولتا ہے، جیسے ہر آئینہ ایک نیا چہرہ دکھا دے۔
راشد خان عاشر کی شاعری، نئی نسل کی ایک فکری و جذباتی ترجمانی ہے—جس میں محض عشق نہیں، بلکہ معاشرتی تلخیاں، انفرادی کرب، اور روحانی خلاء سب کچھ موجود ہے۔ یہ شاعری تازہ ہے، مگر دکھ قدیم ، زبان نئی ہے، مگر احساس صدیوں پرانا،
راشد خان عاشر — غم کا نیا تلفظ،اور دعا کا نیا چہرہ ہے
یہ اشعار نہیں، سانسوں کے اندر کہیں رکے ہوئے آنسو ہیں، جو لفظ بن کر باہر آئے ہیں۔ راشد خان عاشر کی شاعری کسی یاد کے ملبے سے نکلی ہوئی وہ چیخ ہے جو آواز بننے سے پہلے ہی تھک گئی ہو۔
"ہم جسے پیار سمجھتے تھے وہ مزدوری تھی”
یہ فقط ایک مصرعہ نہیں، یہ پوری نسل کی تھکن ہے — جو جذبات بھی تنخواہ کی طرح برتتی ہے، اور محبت کو شفٹ کے اوقات میں ناپتی ہے۔
عاشر کا کلام، ماں کے قدموں سے اٹھتی دعا کی مہک بھی رکھتا ہے اور عاشق کے دل سے ٹپکتے لہو کی گرمی بھی۔
"آنسوؤ یاد رہے، سامنے ماں بیٹھی ہے”
— یہ ادب بھی ہے، ادب کے دائرے میں ضبط کی ریاضت بھی
کہیں خدا ہے، کہیں محبوب، کہیں خود سے بغاوت، اور کہیں خود پرحیرت۔
بعض اوقات وہ آ جاتا ہے ملنے مُجھ سے
بعض اوقات خدا میری طرف دیکھتا ہے
کیا یہ شاعری ہے؟ یا کسی رُوح کا خواب؟
نئی شاعری، نئے دست خط کے سلسلے میں اگر کوئی دست خط خالص دکھ، خالص سچائی اور خالص اظہار کا ہو سکتا ہے، تو وہ راشد خان عاشر کا ہے — جو محبت کو رومان سے نہیں، احترام اور صبر سے لکھتا ہے۔
اس کے چند اشعار سے آپ بھی حظ اٹھائیں ، دوستو
یونہی بے فیض سی بے کار سی دنیا میں ہمیں
جینا پڑتا ہے کہ ماؤں کے کلیجے نہ پھٹیں
تُم رات گئے کس سے ملاقات کرو گے
یہ بات مرے ذہن سے نکلے تو میں سوؤوں
میں نے سونپا ہے جو اُس ضبط کے پابند رہو
آنسوؤ یاد رہے سامنے ماں بیٹھی ہے
دو دو ٹکے کے لوگ تُجھے جانتے ہیں اب
کس کس کو مرے بعد میسر رہا ہے تُو
کس کس سے جانے اُس کے مراسم تھے شہر میں
جتنا حسین شخص تھا اُتنا خراب تھا
ہم اس لیے بھی نہیں دیکھتے ترا چہرہ
ہماری آنکھ کو عادت نہیں اُجالے کی
بعض اوقات وہ آ جاتا ہے ملنے مُجھ سے
بعض اوقات خدا میری طرف دیکھتا ہے
دل بگڑتا ہے تجھے دیکھ کے ایسے جیسے
کوئی بچہ سرِ بازار کھلونے کے لیے
جب تلک آپ نے برسنا ہے
میں کہیں اور بھیگ آؤں گا
دور تک پھیلتا تھا سایہ مرا
جب تلک سر پہ دھوپ تھی اُس کی
ایک شب اُس کا پیرہن اُترا
اور اندھیرے میں روشنی پُھوٹی
اپنا چہرہ بھی پھر نہ دیکھ سکوں
اتنی تذلیل بھی نہ کر میری
بھر رہا ہوں اُڑان اپنی طرف
وہ کہیں درمیاں نہ آ جائے
پامال نہ کرنا کبھی چادر کا تقدس
اِس شے کی معافی تو خُدا بھی نہیں دیتا
اُمید مُجھے اُس سے محبت کی ہے عاشر
جو شخص مُجھے دل سے دُعا بھی نہیں دیتا
چاہتے رہنا اُسے دل کی تسلی کے لیے
دیکھتے رہنا اُسے آنکھ کی مجبوری تھی
روز اُس شخص کا اک حکم نیا ملتا تھا
ہم جسے پیار سمجھتے تھے وہ مزدوری تھی
لاکھ بیمار ہیں بیمار چلے آتے ہیں
ہم تری سمت لگاتار چلے آتے ہیں
ایسے آتے ہیں مری سمت ترے چھوڑے ہوئے
جیسے کربل میں عزادار چلے آتے ہیں
ہم انتظار میں بیٹھے ہیں جس کے شام تلک
اگر وہ بھول گیا ہو ہمارا نام تلک
میں بھول جاتا ہوں دشمن کا نام بھی عاشر
میں یاد رکھ نہیں پاتا ہوں انتقام تلک
کہا خود کو شیشے میں دیکھ کر ترا سر نہ دھڑ سے اُتار دوں
مجھے اپنے آپ سے دور رکھ کہیں میں تجھے ہی نہ مار دوں
سو خفا نہ ہونا کہ رکھ سکا نہ پہن کے میں ترا پیرہن
مری زندگی میں تُجھے اگر کبھی اپنے تن سے اُتار دوں