غزل
راکھ اڑتی ہوئی بالوں میں نظر آتی ہے
عمر گزرے ہوئے سالوں میں نظر آتی ہے
جب بھی کھولا ہے یہ ماضی کا دریچہ میں نے
کوئی تصویر خیالوں میں نظر آتی ہے
شام کے ساتھ جو جادو ہو نگاہوں کا تری
شام ویسی مرے گالوں میں نظر آتی ہے
بستی دل میں جہاں روز تھا ہنگامہ نیا
وہ بھی اجڑے ہوئے حالوں میں نظر آتی ہے
کبھی تنہائی جو راتوں کو ستاتی تھی ہمیں
اب وہی دن کے اجالوں میں نظر آتی ہے
فرح اقبال