نظم
وہ پیڑ جس کی تمام شاخیں جھلس گئیں تھیں
وہ تپتے سورج کی دھوپ چھونے سے جل چکی تھیں
سمجھ رہا تھا کے اب نہ پھوٹے گی کوئی کونپل
بہار اس پر کبھی نہ آئے گی سوچتا تھا
قہار جیسی تھی دھوپ اس پر ستم تھا یہ بھی
پچاس سے بھی حرارتوں کا تھا درجہ اوپر
تو دن بھی کیا اور رات کیا تھی فرق نہیں تھا
رطوبتیں انتہا کو اپنی ہی چھو رہی تھیں
تھا حبس ایسا جو سانس لو تو ہوا نہیں تھی
تھی شام ایسی کے شام اس کے سوا نہیں تھی
ہوا پھر ایسا ہوا نے بدلا جو رخ کو اپنے
جو بانجھ شاخیں تھی ان کی دھڑکن دھڑک اٹھی تھی
نشانیاں زندگی کی ان پر ابھر رہی تھیں
تمام دنیا خزاں کے قصوں کی تھی مقید
بہار صحرا میں گھل رہی تھی ہاں گھل رہی تھی
جو شاخ مردہ تھی اس سے کونپل نکل رہی تھی
سو تم بھی جاناں پکڑ کے انگلی ہوا کے رخ کی
کچھ اس کو دیکھو کچھ اس سے سیکھو ذرا تو سمجھو
آصف سہل مظفر
Asif Sehal Muzaffar