رستہ کوئی بچنے کا نکالا نہیں میں نے
آنے دیا سیلاب کو ٹالا نہیں میں نے
اِس بار میں چپ چاپ ہوا کھیل سے باہر
اس بار تو سکہ بھی اچھالا نہیں میں نے
میں آپ ہی ٹکرایا کیا پنجرے سے سر کو
اس بار پرندہ کوئی پالا نہیں میں نے
دل مجھ سے کیے جاتا تھا ہر بات دوبارہ
نیند آئ تھی لیکن اسے ٹالا نہیں میں نے
اُس پار اتر جانے کی خواہش نے ڈبویا
جو چھید ہے کشتی میں وہ ڈالا نہیں میں نے
جو راکھ تھی اس کو تو اڑانا ہی تھا طاہر
جو رنگ تھا اس کو بھی سنبھالا نہیں میں نے
قیوم طاہر