رستے پہ ظلم و جور کے چلنے لگے ہیں ہم
اب راہ رو کے خون پہ پلنے لگے ہیں ہم
ممکن ہے کوئی بات غلط ہم سے ہو گئی
یا یوں ہی اپنا رنگ بدلنے لگے ہیں ہم
جس کے لئے بنے تھے اسی رہ نورد کو
دیکھا جو مطمئن تو مچلنے لگے ہیں ہم
جب طے ہوا سفر تو لہو پیرہن ہوا
منزل کو دیکھتے ہی ابلنے لگے ہیں ہم
جتنے خیال میں تھے ستم سب ہی ڈھ چکے
اب ہاتھ اپنے ظلم پہ ملنے لگے ہیں ہم
مانوس ہو سکا نہ کوئی مطمئن ہوا
منظرؔ قدم قدم پہ سنبھلنے لگے ہیں ہم
جاوید منظر