غزل
رسم ہے یہ دنیا کی کھیل ہے یہ قسمت کا
چاہتے جسے ہم ہیں وہ نہیں ہے چاہت کا
جس نے ہجر کاٹا ہے بس وہ جان سکتا ہے
زخم سل نہیں سکتا درد ہے وہ شدت کا
آنکھ مر تو جاتی ہے جینے کی تمنا میں
اور وہ نہیں مرتا جو ہے خواب حسرت کا
جو لکھا لکیروں میں اس کو پورا ہونا ہے
وقت ٹل نہیں سکتا ہر گھڑی مصیبت کا
صرف قسمیں وعدے ہیں اور وقت پڑنے پر
ساتھ بھی نہیں دیتا اب کوئی محبت کا
ماہم شاہ