رفاقتوں سے مری ہمکنار کوئی تو ہو
شریک کوئی تو ہو، رازدار کوئی تو ہو
وصالِ یار ہو یا جذبِ شوق مٹ جائے
علاجِ غم مرے پروردگار کوئی تو ہو
میں چل رہا ہوں اکیلا ہی زرد پتوں پر
خزاں رتوں میں مرا غمگسار کوئی تو ہو
غبارِ راہ جما رہ گیا ہے بالوں پر
نشاں سفر کا پئے خاکسار کوئی تو ہو
ستارہ کوئی تو چمکے کبھی سرِ مژگاں
کہ آنکھ میرے لیئے اشکبار کوئی تو ہو
مرے ہی دم سے غنیمت ہے رونقِ صحرا
برائے دشت نورداں بہار کوئی تو ہو
بدل تو جائیں گے حالات آدمی کے ضیاء
نصیب پر بھی مگر اختیار کوئی تو ہو
ضیاء زیدی