غزل
رقص میں ہے جہاں کا جہاں آج کل
ماند ہے گردشِ آسماں آج کل
آسماں پر نہیں زہرہ و مشتری
ہے زمیں پر ہر اک دل ستاں آج کل
نشۂ فصل گل بوئے مے حسن مہ
کھنچ کے سب آ گئے ہیں کہاں آج کل
منزل نہ فلک مجھ کو آواز دے
ہے مری راہ میں کہکشاں آج کل
علم کے آلپس پر ہیں طلب کے قدم
حوصلے اس قدر ہیں جواں آج کل
اس طرف آئیں روح الامیں سے کہو
مست ہے طوطیٔ خوش بیاں آج کل
سعید الطفر چغتائی