غزل
رقص کرتی ہے فضا وجد میں جام آیا ہے
پھر کوئی لے کے بہاروں کا پیام آیا ہے
بادہ خواران فنا بڑھ کے قدم لو اس کے
لے کے ساغر میں جو صہبائے دوام آیا ہے
میں نے سیکھا ہے زمانے سے محبت کرنا
تیرا پیغام محبت مرے کام آیا ہے
رہبر جادۂ حق نور خدا ہادی دیں
لے کے خالق کا زمانے میں پیام آیا ہے
تیری منزل ہے بلند اتنی کہ ہر شام و سحر
چاند سورج سے ترے در کو سلام آیا ہے
ہو گیا تیری محبت میں گرفتار تو پھر
طائر روح بھلا کب تہ دام آیا ہے
خود بہ خود جھک گئی پیشانیٔ ارباب خودی
عشق کی راہ میں ایسا بھی مقام آیا ہے
عاصیو شکر کی جا ہے کہ بہ فیض خالق
ہم گنہ گاروں کی بخشش کا پیام آیا ہے
حرم و دیر کے لوگوں کی خوشی کیا کہنا
بندۂ خالق و دلدادۂ رام آیا ہے
تشنہ کامان نظارہ کو یہ مژدہ دے دو
بے نقاب آج کوئی پھر سر بام آیا ہے
ہو مبارک تمہیں رندو کہ بہ تائید خدا
کوئی چھلکاتا ہوا شیشہ و جام آیا ہے
جب کبھی گردش دوراں نے ستایا ہے بہت
تیرے رندوں کی زباں پر ترا نام آیا ہے
اہل مغرب کو پلا کر مئے عرفاں درشنؔ
پھر سے مشرق کی طرف عرش مقام آیا ہے
درشن سنگھ