رنگ اس محفل تمکیں میں جمایا نہ گیا
خامشی سے بھی مرا حال سنایا نہ گیا
وحشت دل نے حجابات جہاں چاک کیے
ایک پردہ رخ جاناں سے اٹھایا نہ گیا
عشق اک داغ سہی دامن ہستی پہ مگر
خود مشیت سے بھی یہ داغ مٹایا نہ گیا
کر دیا دفتر ہستی تو پریشاں دل نے
مگر اک خواب پریشاں کو بھلایا نہ گیا
وہ اندھیرا تھا کہ ہنگام سحر بھی ہم سے
شمع اندوہ جدائی کو بجھایا نہ گیا
سرحد عشق سے آگے نہ بڑھی وحشت عشق
حسن ہشیار کو دیوانہ بنایا نہ گیا
لاکھ عنواں سے بھلانا انہیں چاہا تھا روشؔ
کسی عنواں سے مگر ان کو بھلایا نہ گیا
روش صدیقی