رنگ بھرتی ہوئی مے خوار کے افسانے میں
کوئی تصویر نظر آتی ہے پیمانے میں
ایک سورج کے تعاقب میں چلا تھا لیکن
چھو لیا میں نے کسی شام کو انجانے میں
رونقِ محملِ لیلیٰ ہے فقط میرا وجود
اب مرے خواب بکھرتے نہیں ویرانے میں
کس قدر دیدہِ خوں بار نے محنت کی ہے
دل اٹھا کر تری دہلیز سے چمکانے میں
اس کی تحریر سے واقف تو نہیں ہو خود بھی
تم نے جو ہاتھ چھپا رکھا ہے دستانے میں
جادہء وقت پہ ہم خود سے بچھڑ جاتے ہیں
رہ رو عمرِ گذشتہ کی خبر لانے میں
یہ ضروری تو نہیں ہے کہ نظر بھی آئے
فرق ہوتا ہے جو ہونے میں نظر آنے میں
کون کہتا ہے مرے شہر میں ویرانی ہے
میں تو خود شہر اٹھا لایا ہوں ویرانے میں
یہ مکاں چھوڑ تو جاؤں مگر اے حاصلِ عمر
بھول جاؤں نہ تجھے یاد کے تہ خانے میں
شعر پورا نہ ہوا صبح تلک مست رہے
مصرعِ خوابِ جوانی ہی کو دہرانے میں
دوش کیا ہے کششِ کوچہِ قاتل کا عتیق
میری مرضی بھی تو شامل تھی وہاں جانے میں
عتیق احمد جیلانی