loader image

MOJ E SUKHAN

20/04/2025 10:04

روزنِ تقدیر قسط نمبر 1

قسط نمبر 1

تحریر شیخ زادی

وہ جو کھو ئی کھوئی اپنے خوابوں میں
وہ جو جاگی جاگی راتوں میں
بس خوش رہنے کا شوق ہے اس کو
بس چاہے جانے کا ذوق ہے اس کو

صبح کاوقت تھا وہ فجر کی نماز پڑھ کر مسجد عمر بن ابو الخطاب سے نکل رہا تھا سردی کافی تھی اس نے اپنے ہاتھ جیکٹ کے اندر کیے اور گھر کے لے نکل گیا۔۔۔۔ کینیڈا میں آپ کو کرسچن کمیونیٹی کے بعد سب سے زیادہ مسلمان ملیں گے ۔۔۔ یہاں مسلمانوں کے لئے مساجد اور مدرسے با آسانی مل جایا کرتے ہیں ۔۔۔۔سورج کی شعاعیں آسمان پر پھیل رہی تھیں
چڑیاں چہچہا رہی تھیں ہر سمت نئے دن کا آغاز ہو رہا تھا۔۔۔۔
مسجد کے برابر میں ہی کابل فارم سپرمارکٹ موجود ہے جہاں مسلمانوں کے لئے تمام تر حلال چیزیں مل جایا کرتی ہیں اس کا مالک بھی عیان کے ساتھ مسجد سے نکلا تھا اور اب اپنی سپرمارکٹ کی جانب عیان سے مصافحہ کرتا مڑ گیا
اننا ہلیارڈ ایل این پر اک خوبصورت وسیع گھر تھا ۔۔۔ جس کے باہر خان ہاؤس کی پلیٹ لگی تھی اک خوبصورت لان سے ہوتے ہوئے دو سیڑھیاں چڑھ کر مین دروازہ کھلتا تھا ۔۔۔
دروازے سے اندر آو تو اک بڑا ہال تھا جس میں سامنے صوفے رکھے تھے۔۔۔ سامنے دیوار پر اک فریم تھا جس پر اللہ اکبر کی کیلیگرافی لگی ہوئی تھی کیلیگرافی کے نیچے آتش دان تھا۔۔۔ ہال سے سیڑھیاں اوپر جا رہی تھیں جہاں عیان کا کمرہ اور اس کی اسٹڈی تھی ۔۔۔وہیں کونے میں اک گیسٹ روم تھا ۔۔۔ نیچے ہال کے سائڈ میں اک جگہ ڈائننگ ایریا تھا اور دوسری طرف اک کمرہ تھا وہ گھر میں آتے ہی اس کمرے کی طرف بڑھ گیا۔۔۔ گھر کے اندر داخل ہوتے اسنے سب سے پہلے اپنی ماں کے کمرے کا رخ کیا دروازے کھلتے ہی سامنے ایک نورانی صورت لیے نفیس سی عورت بیٹھی قرآن پاک کی تلاوت کر رہیں تھیں وہ انکے پاس جا کر بیٹھ
گیاب
قرآن پاک کی تلاوت سن کر اس کے دل کو چین مل رہا تھا اسے ھمیشہ سے ہی اپنی ماں کی تلاوت سن کر سکوں ملتا تھا بے شک دلوں کو سکون قرآن پاک کی تلاوت سے ملتا ہے اور جب وہ ماں کی آواز سے ہو تو دل سکون کی وادیوں میں کھو سا جاتا ہے بس ابھی وہ اسی سکون سے اپنی ماں کے برابر بیٹھا تھا کے اچانک اسکی ماں کی آواز رک گئی اس نے جو سر اٹھا کر دیکھا تو اسکو لگا کسی نے اس کا دل اپنے ہاتھوں میں لے لیا ہو وہ زور سے چلایا امییییییی

بے چینی کے عالم میں وہ ادھر سے ادھر ٹہل رہا تھا گزرے وقت کی ہر اک یاد آسکے دل کو تڑ پا رہی تھی وہ اک با ہمت 27 سال کا خوبرولڑ کا تھا چوڑا سینا چھوٹے نفاست سے کٹے گھنے بال کتھئ آنکھیں گندمی رنگ ہلکی داڑھی چہرے پر بے انتہاء نور لکن اس وقت اس کا دل جس درد میں تھا وہ صرف وہی جانتا تھا اس کی ماں کی طبیعت اچانک خراب ہونے سے وہ بہت پریشان تھا اس کا انکے سوا اور کوئی تھا بھی نہیں باپ کا انتقال تو بچپن میں ہی ہو گیا تھا اور ماں کی طبیعت بھی اب خراب رہنے لگی تھی وہ انسے بے انتہا محبت کرتا تھا دل میں وہ صرف دعائیں مانگ رہا تھا کہ اللہ اسکی ماں کو صحت بخش دے کہ اچانک دروازہ کھلا اور ڈاکٹر باہر آئے اسکی ماں کو ہرٹ اٹیک ہوا تھا ہالت کافی سیریس تھی لیکن اب وہ کچھ کچھ خطرے سے باہر تھیں۔ ڈاکٹر اسے انکی طبیعت سے آگاہ کرتے اور انکا بہت خیال رکھنے کی نصیحت کرتے چلا گیا
کچھ دن بعد فاطمہ بیگم کو ڈسچارج کردیا گیا تھا اور وہ انکی بہت خدمت بھی کر رہا تھا کے ایک دن فاطمہ بیگم نے عیان سے وہ کہا جس کی عیان بالکل خواہش نہ تھی
انھوں نے اس کو اپنے پاس بلایا عیان کا سر اپنی گود میں رکھے وہ بہت پیار سے سہلا رہی تھیں بیٹآ میں اب بوڑھی ہو گئ ہوں اب میری طبیعت بھی کچھ ٹھیک نہیں رہتی میں چاہتی ہوں اب تم پچھلی باتیں بھلا کر نئے سرے سے اپنی زندگی شروع کرو
وہ اپنی ماں کا بالکل بھی نافرمان نہیں تھا لیکن اس بات پر اس کی رگیں تن گئیں۔۔۔
امی میں آپ کو کئ بار بتا چکا ہوں میں جس طرح رہ رہا ہوں ٹھیک ہوں
الحمدللہ خوش ہوں مجھ سے یہ نہیں ہو پائے گا
لیکن بیٹآ جو ہوگیا سو ہو گیا کب تک ایسے ہی رہو گے ابھی تمھاری عمر ہی کیا ہے جو تم اتنا بڑا فیصلہ کر بیٹھے ہو
انسان خطا کا پتلا ہے ہم ایسے کسی اک کی سزا خد کو ساری زندگی نہیں دے سکتے

اسنے نرمی سے اپنی ماں کا ہاتھ پکڑتے کہا
میں بھول نہین سکتا امی اس رویے کو اس تذلیل کو اس دکھ کو جو آپکو ملا میں نہیں کر سکتا
بیٹآ معاف کر دو انھیں
معاف تو میں کب کا کر چکا لیکن نئے سرے سے خد کو جوڑنا میرے بس میں نہیں۔یہ کہ کر عیان اپنی ماں کے ہاتھ پر بوسہ دے کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔۔۔

اپنے دن کا آغاز نماز اور تلاوت قرآن پاک سے کر کے وہ اپنے کمرے میں تیار ہو رہا تھا سوٹ پینٹ پہنے گلے میں ٹائ پہن کر اب اسنے اپنا کوٹ ہاتھ میں لیا ہوا تھا کہ دروازے پر نوک ہوئ اندر آ نے کا کہ کر پھر وہ تیاری میں لگ گیا۔
دروازے پر ملازم اسے ناشتہ کے لئے بلانے آیا تھا ۔اپنے سر کو ہلکی سی جنبشِ دے کر اسنے آنے کا اشارہ کیا لیکن جب جیف نے کوئ ہرکت نہ کی تو مڑ کر اسنے اس کی طرف دیکھا
کیا ہوا سب ٹھیک ہے تم مجھے پریشان لگ رہے ہو
اسکے اس طرح اسکے دل کا ہال جان لینے سے جیف کی آنکھوں میں پانی آگیا
سر میری بیٹی کل رات سے بہت بیمار ہے یہی کہنا تھا کے اسنے فورا کچھ پیسے اسکے ہاتھ میں رکھے اور اسے کچھ دن کے لئے ہیڈ سرونٹ بلاکر لیو بھی دے دی
عیان اللہ خان ایک بہت کئرنگ صاف دل انسان تھا اس کا اسٹاف ہمیشہ اپنی پریشانیاں لیکر اسکے پاس آتا اور وہ انکی مورلی یا مالی مدد کرنے سے کبھی پیچھے نہ ہٹتا
اسکے ہر اندز
سے صآف ظاہر ہوتا کہ وہ ایک با عمل مسلمان ہے ۔۔۔

ناشتہ کر کے وہ اپنے أفس کے لئے نکل گیا

جاری ہے

شیخ زادی

Facebook
Twitter
WhatsApp

ادب سے متعلق نئے مضامین