کمرہ پورا اتھل پتھل تھا اس نے جیسے تیسے موبائل ڈھونڈا اور ابراہیم کو کال ملائ ۔۔۔
اک کام صرف اک کام دیا تھا تم لوگوں کو کہ اس لڑکی پر نظر رکھنا تم لوگ یہ بھی نہ کرسکے پتا ہے نہ وہ لڑکی ہمارے لئے ضروری ہے اس کی جان کو خطرہ ہے اگر وہ ان لوگوں کے ہاتھ لگ گئ تو ناجانے وہ اسکا کیا کریں گے۔۔۔
وہ یہاں سے چلی گئ اور تم لوگوں کو خبر تک نہ ہوئ یہ ہے تمھاری سکیورٹی ۔۔۔۔
سر وہ بالکل ٹھیک ہیں مقابل نے اطمینان سے کہا۔۔۔
تم یہ کیسے کہ سکتے ہو۔۔۔عیان نے انگوٹھے اور انگلی سے سر مسلتے ہوۓ کہا
سر کیونکہ ہم ان پر نظر رکھے ہوئے ہیں وہ اس وقت بیشاہ ہوٹل میں ہیں ۔۔۔
تو یہ بات مجھے پہلے کیوں نہیں بتائ ۔۔۔وہ تیز تیز
سیڑھیاں اترتا غصہ میں بول رہا تھا۔۔۔
سر آپکا نمبر آف تھا اور گھر میں آنے یا پیغام دینے سے آپنے منع کیا تھا ۔۔۔
فون کان سے لگاۓ وہ گھر سے لمبے لمبے ڈنگ بھرتا نکلا اور گاڑی میں بیٹھ کر چلنے کا اشارہ کیا ۔۔۔۔
بھیشا ہوٹل گھر سے قریب تھا وہاں جیکب اسکا ویٹ کر رہا تھا جیکب عیان کے ساتھ ہی سیڑھیاں چڑھنے لگا ۔جسے عیان نے اپنا دایاں ہاتھ اٹھا کر وہیں روک دیا ۔۔۔
روم نمبر لیکر وہ سیدھا کمرے کے دروازے پر رکا ۔۔۔
چہرے پر بے انتہا سنجیدگی لئےاس نے دروازہ کھٹکٹایا ۔۔۔
مقابل کی آواز سن کر اسے سکون ملا کہ وہ ٹھیک ہے۔۔۔
دروازہ کھلنے پر وہ سیدھا اندر دا خل ہوا اور بیڈ پر بیٹھ گیا ۔۔۔
ماہشان پلکیں جھکاۓ کھڑی رہی اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ آدمی آخر اس کے پیچھے کیوں پڑ گیا ہے ۔۔۔
ابھی ماہشان نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کے عیان لمبے ڈنگ بھرتے ہوۓ اس کے پاس آیا۔۔۔۔
عیان کے یوں اچانک اپنے پاس بڑھنے پر وہ دو قدم پیچھے ہوئی ۔۔
اگر نکاح نہیں کرنا تھا تو بتا دیتیں یوں خد کو خطرے میں ڈالنے کی کیا ضرورت تھی۔۔۔ عیان نے بہت شایستگی سے پوچھا۔۔۔
کوئ زبردستی تو نہیں کرتا آپ سے ۔۔۔
کم سے کم آپ یوں خطرے میں نہ ہوتیں۔۔۔
آپ کو کس نے کہا کہ یہاں میں حفاظت میں نہیں ہوں ماہشان نے اک اک لفظ چبا کر کہا۔۔۔
کیا مطلب عیان نے ماتھے پر بل ڈالتے ہوۓ پوچھا ۔۔
یہاں یا وہاں میں جہاں بھی ہوں اپنے رب کی حفاظت میں ہوں آپ کون ہوتے ہیں کسی کو محفوظ کرنے والے ۔۔۔
موت کیا آپ کے گھر میں نہیں آسکتی مجھے میرے رب نے تب بھی ان سے حفاظت میں رکھا تھا جب آپ نہیں تھے اور آگے بھی رکھے گا ۔۔۔
تو مسٹر عیان آپ وسیلہ تو ہوسکتے ہیں پر محافظ صرف اور صرف میرا اللہ ہے ۔۔۔
عیان کی آنکھیں شرم سے جھک گئیں ۔۔
آپ مجھ سے شادی کیوں نہیں کرنا چاہتیں۔۔۔اس بار عیان نے بہت نرمی سے پوچھا۔۔۔
کیونکہ شادی احسانوں تلے نہیں ہوتی۔۔۔
شادی دو طرفہ خیال ۔۔احساس ۔اور۔۔محبت سے ہوتی ہے
شادی کرنے کے لۓ دو لوگوں کا آپس میں اک دوسرے کی عزت کرنا ضروری ہے ورنہ دو وقت کا کھانا چھت تو ہم جانور کو بھی دے دیتے ہیں ۔۔۔
عیان کو جھماکے سے اپنی بات یاد آئ ۔۔۔ امی میں کسی مطلب پرست عورت سے شادی کرلوں جو صرف زندگی گزارنے کے لۓ مجھ سے شادی کرے ۔۔۔
نہیں بیٹا ایسا نہیں ہے فاطمہ بیگم اسکا ہاتھ پکڑ کر بولیں رہنے دیں امی سب کو صرف چھت پیسے اور دو وقت کی روٹی چاہیے ۔۔۔
اسکےماضی میں کہے گۓ الفاظ اسکے کانوں میں گونجنے لگے ۔۔ آنسوں اسکی آنکھوں سے تواتر بہنے لگے۔۔۔ میں آپکا نیچے انتظار کر رہا ہوں یہ کہ کر وہ نیچے چلا گیا۔۔۔۔۔۔
ماہشان اسکی حالت دیکھ کر پریشان ہوگئی ۔۔۔ اسے اپنی بات پر پچھتاوا تو نہیں تھا لیکن اس شخص کے اس پر احسانات تھے وہ اس کا دل نہیں دکھانا چاہتی تھی۔۔۔
لیکن احسانوں تلے وہ اس سے شادی بھی نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔۔۔
عیان سیڑھیاں اتر تا جا رہا تھا اور سوچوں کا اک سمندر اس کے دماغ میں طوفان برپا کۓ ہوۓ تھا ۔۔میں نے آپ پر کوئ احسان نہیں کیا ماہشان میری اوقات ہی کہاں ہے احسان کرنے کی ہاں اگر کسی نے کسی پر احسان کیا ہے تو وہ ہے میرا رب جو کتنا کریم ہے ۔۔۔
وہ شکستہ قدموں سے سیڑھیاں اترتے دل ہی دل میں اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کر رہا تھا
میں وہ گناہگار جس نے صرف اک اسکے بندے کی غلطی کی سزا اس زات کی کل تخلیق کو دی میں یہ بھول گیا کہ انسان خطا کا پتلا ہے ضروری نہیں اگر اک انسان غلط ہے تو سب ہی اک جیسے ہوں ۔۔۔
اور میرا رب اتنا کریم ہے کہ اسنے مجھے نوازنا نہ چھوڑا مجھے میری سوچ کے میرے دل کے اندھیروں میں نہ چھوڑا مجھے ماہشان آپ سے ملوایا
یہ دکھانے کے لۓ کہ سب اک جیسے تو ہر گز نہیں آپ جیسے بھی ہیں ۔۔۔
جو پاک ہیں جن کی سوچ اور نیت پاک ہے
جو اللہ کے ہیں اور اللہ ان کا ہے
وہ بے خودی کے عالم میں سوچے جا رہا تھا۔۔
اسے اپنی سوچ پر آج بہت پچھتاوا تھا ۔۔۔۔
اس نے دنیا کی ہر لڑکی کو سنبل سمجھ لیا تھا ۔۔۔۔
وہ پہلے ایسا نہ تھا لیکن اکثر زمانے کی تلخیاں ہمیں تلخ بنا ہی دیتیں ہیں۔۔
وہ نیچے گاڑی سے ٹیک لگاۓ ماہشان کا انتظار کرنے لگا ۔۔۔
اک تنگ سی گلی سے ہوکر اک چھوٹا سا ہوٹل تھا ۔۔
سیڑھیوں پر جگہ جگہ گندگی اور عجیب سے لوگ کھڑے تھے ۔۔
اوپر اک روم میں وہ ہاتھ میں فون لۓ کسی کے فون کا انتظار کر رہی تھی۔۔۔
اک دم فون بج اٹھا اس نے پہلے ہی رنگ میں فون اٹھا لیا۔۔۔
مجھے بس یہاں سے نکال لو ۔۔۔ دیکھو پلیز مجھ پر رحم کرو مجھے بس اک دفع یہاں سے کہیں دور بھجوادو ۔۔۔
سنبل گڑگڑانے کے انداز میں بولی ۔۔۔
اسکو دیکھ کر لگتا نہیں تھا کہ یہ وہی سنبل ہے بال چھوٹے ۔۔۔
آنکھوں کے گرد سیاہ ہلکے۔۔ ہونٹ پر زخم۔۔۔ چہرہ بے رونق۔۔۔پتلی کمزور
وہ مغرور لڑکی تو کہیں کھو ہی گئ تھی۔۔۔
مقابل سے جب کوئ امید نہ ملی تو اس نے کچھ سوچتے ہوۓ اک نمبر ملایا ۔۔۔۔۔
کچھ رنگز جانے کے بعد اسلام وعلیکم کی آواز آئ۔۔
سنبل جھٹ بولی عیان۔۔۔
عیان اس آواز کو بہت اچھی طرح پہچانتا تھا۔۔۔
ہاں بولو سنبل کیا کام ہے۔۔۔۔۔ اس نے لہجے کو سخت کر کے بولا ابھی تو اس نے ماضی کو بھلا کر آگے بڑھنے کا سوچا تھا۔۔۔
عیان مجھے تمھاری مدد چاہیے ۔۔۔
سامنے سے آتی ماہشان کو دیکھ کر اس نے اپنے چہرے کی سختی کو فوراً چھپالیا ۔۔۔
تم سے بعد میں بات ہوگی سنبل۔۔۔۔ ۔ابھی وہ کٹ کرنے ہی لگا تھا کہ سنبل اک دم زور سے بولی وہ مجھے مار دےگا عیان۔۔۔۔
عیان جو فون کان سے ہٹانے ہی لگا تھا اس کی بات پر دوبارہ فون کان پر لگایا۔۔۔ کون ۔۔۔۔
میرا شوہر۔۔۔
مجھے بچالو عیان
عیان کو سمجھ نہیں آیا
ماہشان کو اپنی گاڑی میں بٹھا کر اسنے ڈرائیور کے ساتھ گھر بھجوادیا ۔۔۔
ماہشان کو پہلے تو عجیب لگا لیکن پھر وہ اپنی سوچوں کو جھٹک کر پر سکون ہو کر بیٹھ گئ۔۔۔۔
عیان سنبل سے اس کی لوکیشن جان کر اب آگے کا سیٹ اپ بنانے لگا ۔۔۔
کچھ لوگوں سے بات کر کے اس نے انہیں سنبل کے پاس بھیجا اور سنبل کو بھی فون کر کے ہدایات دیں۔۔۔۔
دیکھو سنبل میرے کچھ آدمی آرہے ہیں تمھارے پاس وہ تمھیں جو کہیں ویسا ہی کرنا اللہ نے چاہا تو تم کل تک یہاں ہوگی ۔۔۔
تھینک یو عیان۔۔۔
ابھی وہ بات کر ہی رہی تھی کہ عیان نے فون بند کردیا ۔۔۔
سنبل اب بے چینی سے ان لوگوں کا انتظار کرنے لگ گئ۔۔۔۔
ادھر ماہشان کے دل و دماغ میں ہزاروں سوال اٹھنے لگے تھے بظاہر تو وہ خاموش تھی لیکن اس کے اندر اک طوفان پوشیدہ تھا۔۔۔
عیان کی آنکھوں میں آنسوں اس کے دل میں سوالوں کی بوچھار لگاۓ ہوۓ تھے ۔۔۔
کیونکہ ایسا مرد تو اس نے آج تک نہ دیکھا تھا بار بار عیان کا چہرہ اس کی آنکھوں میں آرہا تھا۔۔
عیان کی آنکھوں میں آخر کس چیز کا ملال تھا
یہ کوئ ڈرامہ یا فلمی کہانی تو نہیں جو ہیرو ہیروئن کے لۓ روتا پھرے اس کی آنکھوں میں کچھ اور ہی تھا وہ دل ہی دل میں خد سے عیان پر تبصرہ کر رہی تھی ہاں وہ بے چین تھی۔۔۔
عیان کی آنکھوں میں زمانے کی تھکان تھی وہ اس درد کو محسوس کرسکتی تھی کیونکہ وہ بھی اسی تھکن سے دوچار تھی۔۔۔
لیکن اسے عیان کا ہر بار اسے ڈھونڈ لینا بھی الجھن میں ڈال رہا تھا آخر وہ ہر دفع مجھ تک کیسے پہنچ جاتے ہیں ۔۔
کیا انہوں نے مجھ پر نظر رکھوائ ہوئ ہے
اس دن بھی انہوں نے کہا وہ اس آدمی سے ملنا چاہتے ہیں کیوں آخر کیوں ۔۔۔
وہ راستے بھر انہی الجھنوں میں الجھی رہی اور گاڑی اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہی ۔۔۔۔
**********——–*********
رات کافی ہوگئ تھی لیکن عیان کا کچھ پتا نہیں تھا فاطمہ بیگم ابھی تک اس کا انتظار کر رہی تھیں ۔۔۔
عیان نے فون کر کے دیر سے آنے کی اطلاع تو کر ہی دی تھی لیکن پھر بھی وہ پریشان تھیں کیونکہ عیان کبھی ایسے دیر نہیں لگاتا ۔۔۔
جیسا بھی ضروری کام ہو وہ لیٹ نائٹ گھر نہیں آتا ۔۔۔
اتنے میں باہر گاڑی رکنے کی آواز آئ فاطمہ بیگم جو کب سے پریشان تھیں انہیں کچھ سکون ملا لیکن اگلے ہی لمحے وہ پھر پریشان ہوگئیں
گھر آکر عیان سیدھا غصے کی حالت میں اپنے کمرے میں چلا گیا ۔۔۔
ایسا تو وہ کبھی نہیں کرتا چاہے کچھ بھی ہو وہ انہیں سلام کر کے ہی اپنے روم میں جاتا تھا ضرور کوئ بڑی بات ہے کہ کر۔۔
آہستہ آہستہ سیڑھیاں چڑھتی وہ اس کے کمرے کے دروازے پر پہنچیں ۔۔۔
عیان بیٹا دروازہ کھولو انہوں نے بہت نرمی سے کہا ۔۔۔
عیان جو غصہ میں بھرا بیڈ پر بیٹھا تھا فوراً دروازے کی جانب لپکا
دروازہ کھول کر اسنے اپنی امی کو سلام کیا اور انہیں دونوں کندھوں سے پکڑ کر آرام سے بیڈ پر بٹھایا اور خد نیچے بیٹھ کر ان کی گود میں سر رکھ دیا۔۔۔۔
عیان بیٹا آپ پریشان ہو۔۔۔۔
عیان نے کچھ جواب نہ دیا۔۔۔
عیان میری جان کیا ہوا۔۔
امی کچھ بھی مت پوچھیں۔۔۔ میں کیا بتاؤں مجھے تو سمجھ نہیں آرہا ۔۔۔۔
میں ماہشان سے نکاح کے لۓ تیار ہوں میں نے ان سے پوچھا بھی ہے
فاطمہ بیگم یہ سن کر بہت خوش ہوئیں
انہوں نے انکار کردیا وہ جو فیصلہ کریں ہمیں وہ منظور ہے۔۔۔۔
تو بیٹآ آپ اس بات پر پریشان ہیں۔۔۔
امی ہال سے تو میں مطمئن ہوں پریشان مجھے میرا ماضی کۓ ہوۓ ہے ۔۔
ماضی کے کالے ساۓ اک بار پھر اس کی آنکھوں کے سامنے لہرانے لگے۔۔۔۔
جاری ہے
شیخ زادی