23/02/2025 18:09

روزنِ تقدیر قسط نمبر 2

تحریر شیخ زادی

سارے راستے ماضی اسکے زہن کو الجھاتا رہا لیکن وہ اپنی سوچوں کو جھٹک کر بالاخر کام میں لگ گیا تھا اسکا آفس کا کمرہ بہت نفیس اور خوبصورت تھا
شیشے کے دروازے سے اندر آؤ تو سامنے ہی میز تھی جس پر اسکا کمپیوٹر اور فائلز سلیقہ سے رکھیں تھیں
سائڈ پر ایک لیدر کا سوفہ تھا جس کے ساتھ ایک فش ایکیوریم رکھا تھا
دوسری طرف پرے ایریا تھا۔آفس میں کام کرتے اسکا فون بجا نمبر دیکھتے ہی اسکے چہرے پر ناگواری امڈ آئ
کال اٹھا کر اسنے سلام کیا
اسلام وعلیکم
مقابل سے جو خبر ملی وہ اسکے لئے تکلیف دہ تھی اسکے اکلوتے تایا انتقال کرگئے تھے یہ خبر اسے اسکے تایا کے گھر کے ملازم نے دی تھی
انا للّٰہ وانا الیہ راجعون
پڑھ کر اسنے فون بند کردیا
تایا اب اکیلے ہی رہتے تھے انکی بیوی بھی کچھ سال پہلے وفات پاگئیں تھیں
اور بیٹی شادی کر کے امریکہ شفٹ ہو گئ تھی۔۔۔جس نے دوبارہ پلٹ کر کبھی بوڑھے باپ کو نہ پوچھا تھا۔۔۔۔

ماضی ایک بار پھر اسکی آنکھوں کے سامنے آنے لگا۔اپنی سوچوں کو جھٹک کر وہ اپنا کام ختم کر کے گھر کے لئے روانہ ہوا کیونکہ امی کو بھی شفیق تایا کی موت کی خبر دینی تھی پہلے ہی انکی طبیعت ٹھیک نہیں ناجانے ا س خبر پر وہ کیا ریئکٹ کریں جو بھی تھے جیسے بھی تھے آخر کو رشتے دار تھے
کار کو آج وہ خود ڈرائیو کر رہا تھا ناجانے کن سوچوں میں تھا کہ سامنے سے بھاگ کر آتا وجود اسکو دکھائ نہ دیا اور گاڑی سے ٹکر ا کر زمین پر گر گیا۔
خود پر قا بو پاتے وہ فوراً گاڑی سے نیچے اترا ۔۔بھاگ کر اسکی طرف آیا۔ وہ ایک لڑکی تھی خوبصورت ماتھے پر چوٹ کی وجہ سے بیہوش ہو گئ تھی جلدی سے اسے گود میں اٹھا کر گاڑی کی طرف مڑا ایک پل کو اسے بہت عجیب لگا کیونکہ اسنے کبھی کسی نامحرم کو آج تک نگاہ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا تھا سور اسے یوں ہاتھ میں اٹھایا ہوا تھا اس لڑکی کے بال بکھرے ہوئے تھے چہرہ خون میں لت پت تھا جس کی وجہ سے صحیح سے نظر نہیں آرہا تھا لیکن پھر بھی اک رونق تھی کوئ کشش تھی جو اسے اپنی جانب کھینچ رہی تھی ۔۔۔ یا اللہ کہ کر اس نے سر جھٹکا گاڑی کی بیک سیٹ پر سسےلٹا کر وہ سیدھا ڈرائیونگ سیٹ کی طرف بڑھا۔۔
ڈاکٹر کو وہ راستہ میں ہی
کال کر کے گھر بلا چکا تھا۔…

۔سپیڈ میں وہ گاڑی دوڑاتا ہوا گھر لایا اندر گاڑی پارک کرتے ہی اسنے جلدی سے گاڑی کا دروازہ کھولا اور اس بیہوش وجود کو اپنے ہاتھوں میں اٹھائے وہ جلدی سے گھر میں داخل ہوا کمرے کا دروازہ پاؤں سے کھول کر اسے بیڈ پر لٹایا
وہ ہوش میں آرہی تھی اس کے درد سے کراہنے کی آواز سے اسے عجیب سی بیچینی اٹھی ۔
ماریہ ماریہہہہ وہ زور دار آواز میں چلایا
جی ما رہی کمرے میں آتے ہی بولی
ڈاکٹر وسیم جیسے ہی آئیں سیدھا میرے کمرے میں بھیجنا
ماریہ کی نظر اس معصوم وجود پر پڑی تو وہ سب سمجھتے سر ہلا کر کمرے سے چلی گئ
اتنے میں ڈاکٹر وسیم بھی کمرے میں داخل ہوگئے نرس اب اسکا چہرہ صاف کر رہی تھی خون کے ہٹتے ہی چہرہ واضح ہونے لگا تھا
میں باہر ہی ہوں کہ کر عیان باہر چلا گیا وہ لڑکی میں ناجانے کیا بات تھی عیان کی نگاھیں بار بار اس کی طرف اٹھ رہیں تھیں بس یہی چیز اسے پریشان کر رہی تھی کیونکہ وہ اپنی نگاہ کی حفاظت کرنا جانتا تھا اور اس طرح کبھی کسی چہرے کو اسنے نہ دیکھا تھا وہ خود حیران تھا اس بات پر
عیان
۔۔۔ فاطہ بیگم نے اسے آواز دی کون ہے یہ لڑکی
عیان نے انہیں پوری بات بتا دی
لیکن بیٹآ آپ تو کبھی اس طرح ریش ڈرائیو نہیں کرتے دیکھیں یہ کیا ہو گیا ناجانے اس کے گھر والے کتنا پریشان ہو رہے ہونگے ویسے ہے کون پتا کی تم نے
نہیں امی کچھ پتہ کرنے کا وقت ہی نہیں ملا یہ سب تنا اچانک ہوا
یہ کہتے ہی ایک دم اسکا خون سے لے پت چہرہ اسکے سامنے آگیا وہ تھم گیا لیکن اگلے ہی لمحے استغفار پڑھ کر اسنے اسکے خیال کو اپنے دماغ سے نکالا
امی میں فریش ہو کر نماز پڑھ لوں پھر مجھے آپکو اک بات بھی بتانی ہے تب تک آپ اسکے پاس ہی رہیے گا
ابھے اسے تایا کی خبر بھی دینی تھی کاش اسے پتا ہی نہ چلتی یا وہ چھپا لے کیونکہ ابھی وہ امی کو کوئ دکھ نہیں دینا چاہ رہا تھا۔
وسیم بیٹآ اب یہ کیسی ہے
آنٹی یہ بالکل ٹھیک ہے سر پر زیادہ گہری چوٹ نہیں تھی ۔بس وہ گھبرا کر شاید بیہوش ہوگئ باقی پریشانی کی کوئ بات نہیں ہے ابھی سو رہی ہے میں نے دوا دے دی ہے صبح تک بالکل ٹھیک ہو جائے گی۔
وسیم عیان کا دوست ہے شروع میں جب عیان اور اسکی ماں کینیڈا آئے تھے تو وسیم اور اسکی فیملی نے انکی بہت مدد کی تھی اسی دوران وسیم اور عیان کی دوستی ہو گئی تھی

بیٹآ کھانا کھا کر جاؤ نہیں آنٹی آپکی بہو گھر پر ویٹ کر رہی ہے چلتا ہوں پھر بھی کوئ بات ہو تو فون کر دیجیے گا میں آجاو گا اللہ حافظ
فاطمہ بیگم ایک نظر اس بچی پر ڈال کر ڈایننگ روم کی جانب بڑھ گئیں۔۔

جاری ہے

Facebook
Twitter
WhatsApp

ادب سے متعلق نئے مضامین