23/02/2025 18:09

روزنِ تقدیر قسط نمبر 29

قسط_نمبر_29

#از_قلم_شیخزادی

#روزن_تقدیر

#episode_29

#rozan_e_taqdeer

دروازے پر دستک سے دونوں کی آنکھ کھلی ۔۔۔
ماہشان ابھی آٹھ ہی رہی تھی کہ عیان آپ رہنے دیں میں دیکھتا ہوں کہ کر دروازے کی طرف بڑھا
آئیں امی ۔۔۔۔ دروازے پر فاطمہ بیگم تھیں۔۔۔۔
بیٹا آمنہ اور وسیم کے ساتھ جانا نہیں ہے آپ کو ۔۔۔فاطمہ بیگم لہجے میں ڈھیروں مٹھاس لۓ انہیں یاد دہانی کرانے لگیں
جی امی یاد ہے وہ بس آنکھ ہی نہیں کھلی شاید تھکان زیادہ تھی
یا شاید آج دل کو سکون ملا تھا وہ دل ہی دل میں ماہشان کو دیکھتے ہوۓ بولا
بچوں چلو پھر آپ لوگ جلدی سے تیار ہوکر نیچے آجاؤ سنبل بھی آپ دونوں سے ملنا چاہ رہی ہے یہ کہتی وہ کمرے سے چلی گئیں
عیان دروازہ بند کرتا سیدھا الماری کی طرف بڑھا اندر سے اس نے ماہشان کو اک بڑا سا باکس نکال کر دیا
آپ آج یہ پہنیں گی ۔۔۔ چہرے پر بے پناہ محبت لۓ وہ یہ باکس ماہشان کو دیکر خود الماری سے اپنے کپڑے نکال کر چینج کرنے چلا گیا۔۔۔
ماہشان نے عیان کے جاتے ہی باکس آہستہ آہستہ سے کھولا اندر کھلتے نیلے رنگ کی میکسی رکھی تھی ماہشان نے اسے اٹھا کر دیکھا ۔۔۔ بلاشبہ وہ بہت خوبصورت تھی ماہشان کی آنکھوں میں ستائش صاف ظاہر تھی
ساتھ ہی اک چٹ رکھی تھی ماہشان میکسی سائڈ پر رکھتی آنکھوں میں حیرت لۓ چٹ اٹھا کر پڑھنے لگی
پہلا تحفہ نیلے رنگ کا آپکو میری طرف سے ۔۔ نیلے رنگ ظاہر کرتا ہے گہرائ کو آزادی کو خوابوں کو بھروسے کو سچائ کو ۔۔۔۔
یہ آپکو یہ بتانے کے لۓ کہ آپ آج سے آزاد ہیں ہر ڈر سے ہر خوف سے
یہ بتانے لۓ کہ آپکا ہر خواب اب پورا کرنا میری زمہ داری ہے
یہ بتانے کے لۓ کہ میرے دل میں آپ کو لیکر جو جزبات ہیں وہ کتنے سچے ہیں
اس رنگ کو اپنی زندگی میں قبول کیجۓ ۔۔۔۔
مائ بیٹر ہالف
ماہشان چٹ پڑھتی اسی میں کھوئ ہوئ تھی کہ اک دم عیان چینج کر کے باہر آگیا عیان نے باہر آتے ہی ماہشان کے مہندی سے بھرے ہاتھوں میں چٹ دیکھی اور ہلکا سا مسکرایا

کیا سوچ رہی ہیں ماہشان کو یوں کھویا دیکھ کر اس نے آہستہ سے پوچھا
ماہشان نے آہستہ سے پلکیں اٹھا کر اسے دیکھا آنکھوں میں آنسوں تھے ۔۔۔۔
کیا ہوا آپ کو اچھا نہیں لگا ماہشان کی آنکھوں میں آنسوں دیکھتے وہ اک دم گھبرا کر اس کے پاس آکر بیٹھ گیا
نہیں ایسی بات نہیں ہے ۔۔۔ بس مجھے یقین نہیں آرہا کہ یوں تقدیر بدل جاتی ہے ۔۔۔۔ مجھے یہ سب بہت اچھا لگا ہے میرا یقین کریں میں تو بوند پر بھی شکر گزار تھی اور میرے رب نے تو پورا دریا ہی دے دیا ۔۔۔۔
آپکی یہ سوچ یہ جزبات میرے لۓ بہت قیمتی ہیں یہ کہتی وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی شاید یہ آج تک کا ضبط تھا جو ٹوٹا تھا انسان ہر کسی کے سامنے مضبوط بنتے بنتے بھی تھک جاتا ہے پھر اسے اک کندھا چاہیے ہوتا ہے جہان وہ اپنی تھکان اتار سکے آج اسے وہ سہارا وہ کندھا مل گیا تھا ۔۔۔۔ وہ بس روۓ جا رہی تھی
عیان اسے ایسے دیکھ کر بہت پریشان ہوگیا اسے چپ کرانے کی ہر کوشش ناکام جا رہی تھی
دیکھیں آپ ایسے کریں گی تو پھر میں آئندہ کبھی اپنے جزبات یوں آپکے سامنے ظاہر نہیں کروں گا کیونکہ میرا مقصد آپ کی خوشی ہے نہ کہ آپکو یوں رلانا آپکو روتے دیکھنا مجھے تکلیف دیتا ہے ماہشان کے چہرے کو اپنے دونوں ہاتھوں میں لیتے وہ بہت اپنائیت سے بولا
خد کو عیان کے اتنے قریب پاکر ماہشان اک دم گھبرا کر پیچھے ہوئ اور اپنے آنسوں پونچھنے لگی
عیان ماہشان کے اک دم گھبرانے پر مسکرادیا
چلیں اب مت روئیے گا اور تیار ہوجائیں امی ویٹ کر رہی ہوں گی
وہ سر کو ہلاتی اٹھ کر چینج کرنے چلی گئ
تھوڑی ہی دیر میں نیلے رنگ کی میکسی پہنے وہ واش روم سے باہر نکلی لمبے کالے بال کھلے ہوۓ تھے چہرا بنا میک اپ کے ہی بے انتہا خوبصورت لگ رہا تھا نہ کوئ زیور نہ کوئ میک اپ لیکن اللّٰہ کی طرف سے عطا کردہ نور عیان کو پلکیں تک جھپکنے سے قاصر کۓ ہوۓ تھا
آئنہ کے سامنے بیٹھتی وہ آہستہ آہستہ اپنی جیولری پہننے لگی ہلکی سی لپ اسٹک لگاکر اسنے سر پر اچھے سے دوپٹہ اوڑھا اور عیان کی طرف مڑ گئ
چلیں ۔۔۔وہ بہت دیر سے عیان کی نظریں خد پر محسوس کر رہی تھی اسی لۓ نظریں جھکاۓ آہستہ سے بولی اور دروازے کی جانب مڑ گئ
ارے اک منٹ محترمہ رکیں میرے ساتھ چلیۓ گا نا اس کو اس طرح جاتا دیکھ عیان ہنستا ہوا اس کے ساتھ کمرے سے نکل گیا
چاچی میں مل آتی ہوں دونوں سے وہیں کیا پتا آئیں ہی نہیں وہ دونوں نیچے ۔۔۔
نہیں بیٹا انہیں جانا ہے آمنہ وسیم کے ساتھ وہ آرہے ہوں گے آپ چاہو تو چلی جاؤ تیار ہورہے تھے دونوں۔۔۔
لو آگۓ ۔۔۔۔ سنبل جو ان دونوں کا ہی انتظار کر رہی تھی انہیں اک ساتھ نیچے آتا دیکھ اک دم بولی
ان دونوں کو یوں آتا دیکھ سنبل کے دل میں حسد کی آگ اور بڑھنے لگی لیکن اپنے چہرے پر اس نے بڑی صفائی سے اپنی حسد کے سارے آثار چھپاۓ ہوۓ تھے
مبارک ہو تم دونوں کو بہت ۔۔۔۔ اللّٰہ تم دونوں کو ہمیشہ خوش رکھے ۔۔۔۔ سنبل چہرے پر مسکراہٹ لاتے بڑے اپنے پن کا مظاہرہ کرتے ہوۓ بولی
شکریہ ۔۔۔۔ ماہشان سنبل سے گلے ملتی مسکراتے ہوۓ بولی
ماشاءاللہ ماشاءاللہ میری بیٹی تو بہت ہی پیاری لگ رہی ہے ۔۔۔۔۔ فاطمہ بیگم ماہشان کو اپنے پاس بٹھاتے ہوۓ بولیں
ماہشان ان کے اس پیار بھرے انداز سے کھل اٹھی
بھئ عیان میری بیٹی کا صدقہ ضرور دے دینا۔۔۔ چلو اب جلدی چلے جاؤ وہ دونوں انتظار کر رہے ہونگے ۔۔۔۔ فاطمہ بیگم آنکھوں میں بے تحاشہ خوشی لۓ ان دونوں سے بولیں
جی امی بس جا رہے ہیں۔ ۔۔۔ چلیں ۔۔۔
کہاں جا رہے ہیں آپ دونوں سنبل نے اک دم بیچ میں پوچھا
یہ تو پتا نہیں وسیم اور آمنہ کا سرپرآئز ہے عیان یہ کہتا ماہشان کو لیتا باہر چلا گیا
سنبل کے دل کی آگ کو اور ہوا مل گئ۔۔۔۔ میرے ہی دشمن ملے تھے تم سب کو خوشیاں منانے کے لۓ ۔۔۔۔ دل ہی دل میں یہ کہتی وہ اپنے کمرے میں چلی گئ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عیان گھر سے نکلتے ہی سب سے پہلے ابراہیم کی طرف گیا عام طور پر وہ کسی کے سامنے ابراہیم سے بات نہیں کرتا تھا لیکن اب ماہشان کو تو سب پتا ہی تھا اور ابراہیم کا کام ماہشان ہی کی حفاظت کو یقینی بنانا تھا
جی باس یہیں رکنا ہے یا آپ کے ساتھ چلوں ۔۔۔۔ ابراہیم عیان کو خد کے پاس آتا دیکھ کر بولا
تم آدھی ٹیم کے ساتھ یہیں رکو باقی کچھ لوگوں کو ہمارے ساتھ بھیج دو لیکن خیال رہے میری پرائویسی ڈسٹرب نہ ہو عیان رعب دار لہجے میں بولتا واپس ماہشان کے پاس آگیا
چلیں ۔۔۔۔ گاڑی کا دروازہ کھولتا وہ سیدھا وسیم کی دی گئ لوکیشن پر پہنچا
وسیم نے کروز ڈنر کا انتظام کیا تھا وہ دونوں مطلوبہ جگہ پہنچ تو گۓ تھے وہاں کی ڈیکوریشن وغیرہ بھی بہت ہی دلکش تھی لیکن وسیم اور أمنہ کا ہی کہیں اتا پتا نہیں تھا
آمنہ اور وسیم بھائ کہاں رہ گۓ ماہشان ڈھونڈتی نظروں سے عیان سے پوچھنے لگی
مسز عیان اللّٰہ خان بندہ کب سے آپکی جانب سے دو میٹھے بول کا منتظر ہے اور اک آپ ہیں کبھی شرمانے لگ جاتی ہیں کبھی رونے تو کبھی گھبرانے اب جب آپنے کچھ کہا بھی تو یہ ۔۔۔۔۔ یہ تو ظلم ہوا محترمہ عیان ماہشان کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا اس سے شکوہ کرنے لگا
ماہشان آنکھیں نیچے کرتی پھر سے مسکرانے لگی
اتنے میں اک ویٹر آکر ان دونوں کو اک کارڈ دیکر چلا گیا
دونوں اس کارڈ کو حیرت سے دیکھنے لگے جس پر لکھا تھا پہلا ڈنر ہماری طرف سے امید ہے پسند آۓ گا خوش رہو اور اچھی یادیں سمیٹو۔۔۔۔
مسٹر اینڈ مسز وسیم
تو یہ صرف ہم دونوں کے لۓ ہے عیان کو وسیم اور آمنہ کا یہ انداز بہت پسند آیا تھا ۔۔۔۔۔
دور دور تک پھیلا خاموش سمندر ۔۔۔ ٹھنڈی ہوائیں
ہلکا سوفٹ میوزک اس پر سامنے پسندیدہ شخص ۔۔۔۔ وہ شخص جو آپکا محرم ہے جسے دیکھنے سے ہی اللّٰہ آپ سے خوش ہے۔۔۔۔۔۔ ماہشان ابھی بھی شرما رہی تھی عیان کچھ بھی کہتا اس کا جواب یا تو وہ مسکرا کر دیتی یا پھر نظریں ہی جھکا لیتی۔۔۔۔
آپ تو اک منٹ کے لۓ بھی اگر مجھے لگاتار دیکھ رہی ہیں تب بھی شرما جاتی ہیں ۔۔۔۔۔۔ اب اگر کسی غریب کو اپنی زوجہ محترمہ سے دل لگی کرنی ہو تو وہ کیا کرے زوجہ نہ تو کوئ بات کر رہی ہیں نہ ہی کسی بات کا جواب دے رہی ہیں بس مسکرا رہی ہیں۔۔۔۔ عیان اک دفع پھر میدان محبت میں اپنے پیار بھرے بول لے کر اتر گیا ۔۔۔۔
ماہشان پہلے تو مسکرائ ۔۔۔۔۔ اپنی گول گول آنکھیں اوپر کرتے اس نے عیان کی آنکھوں میں دیکھا ۔۔۔۔ کچھ بولنے کی ہمت جما کرتی وہ پھر سے نروس ہونے لگی ۔۔۔۔
آپ ہر وقت اس طرح دیکھتے رہتے ہیں میں جب کچھ بولنا چاہتی بھی ہوں تو بول نہیں پاتی ہوں انگلیاں پھر سے مڑوڑنا شروع کرتی وہ نظریں جھکاۓ جھکاۓ بولی
چلیں نہیں دیکھ رہا اب ادھر دیکھ لیا اب بات کرلیں کچھ۔۔۔ عیان اپنا چہرہ موڑھتے ہوۓ بولا
آپ جیسے دکھتے ہیں اس سے بہت مختلف ہیں ماہشان ہمت جمع کرتے ہوۓ بولی
مطلب عیان کواس کی بات بالکل سمجھ نہیں آئ تھی وہ اک آبرو اٹھاتے مسکراتے ہوۓ پوچھنے لگا۔
مطلب یہ کہ۔۔۔ میں سمجھتی تھی کہ آپ بہت سنجیدہ اور کم گو ہیں ۔۔۔۔
تو مسز عیان اللّٰہ خان میں ایسا ہی ہوں اس میں آپکو کوئ شک نہیں ہونا چاہیئے عیان کرسی سے ٹیک لگاتے پیر کے اوپر پیر رکھتے ہوۓ بولا
تو پھر یہ کرم نوازی صرف میرے لۓ ہے ماہشان اس بار شرماۓ بغیر عیان کی طرف دیکھتے ہوۓ بولی
دیکھیں دل کے دروازے پر دستک ہوئ ہے کھولنا تو لازم ہے نا ۔۔۔۔کسی غیر کی دستک پر یوں دل کے دروازے کوئ کھولتا ہے کیا دل جس کو اپنا کہتا ہے اسی پر اپنی تمام تر نوازشات کرتا چلا جاتا ہے اس میں میرا کوئ اختیار نہیں ہے میں بس آپکی طرح شرماتا نہیں ہوں اپنے دل کی آواز کو دباتا نہیں ہوں عیان اپنی محبت بھری نگاہیں ماہشان پر مرکوز کۓ پر سکون لہجے میں بولا
انکار جیسی لزت اقرار میں کہاں
عشق بڑھتا ہے غالب ان کے نہیں نہیں سے
عیان کی باتیں سن کر جب وہ پھر سے شرمانے لگ گئ تو عیان نے اس کی طرف بڑھتے ہوۓ شعر کہا
چلیں ۔۔۔۔۔ عیان اپنا ہاتھ بڑھاتا اسے اٹھنے کا کہنے لگا
کروز سے اتر کر وہ دونوں تھوڑی دیر چہل قدمی کرنے لگے۔۔۔آسمان پر پورا چاند۔۔۔۔۔ ٹھنڈی ہوا ۔۔۔۔۔ خالی راستہ ۔۔۔۔ وہ دونوں اکیلے چلتے چلے جارہے تھے
کل ہم پاکستان جا رہے ہیں صبح گھر چل کر پیکنگ دیکھ لیجیۓ گا ویسے تو امی نے سب کچھ کر لیا ہوگا پھر بھی۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ دن اسٹے کریں گے ۔۔۔۔۔
کیوں خیریت ۔۔۔۔ ماہشان حیرت سے پوچھنے لگی
بس کچھ ضروری کام ہے اور ہم تھوڑا گھوم بھی لیں گے اگر آپ کہیں اور جانا چاہتی ہیں تو ہم وہاں بھی جا سکتے ہیں جیسی آپکی مرضی عیان شرارتی انداز میں بولا۔۔
نہیں نہیں ۔۔
ٹھیک ہے پاکستان میں کہاں۔ جائیں گے
کراچی ۔۔۔۔۔ عیان نے پر سکون انداز میں بولا
ادھر ماہشان کے پیر ہلنے سے قاصر ہوگۓ اک پل کے لۓ ماضی کے ہر برے لمحات اس کی آنکھوں کے سامنے سے گزرنے لگے۔۔۔
کیا ہوگیا آپکو رک کیوں گئیں۔۔۔۔ عیان حیرت سے ماہشان کو دیکھتے ہوۓ بولا
میرا جانا ضروری ہے میرا مطلب ہے اگر میں جانا نہ چاہوں تو ۔۔۔۔ماہشان افسردگی سے بولی۔
گھر چل کر بات کرتے ہیں عیان ماہشان کی آنکھوں میں آنسوں دیکھتا اس کے دل کی کیفیات کا اندازہ لگاتے ہوۓ بولا۔۔۔۔۔۔۔۔

جاری ہے۔ ۔۔۔

Facebook
Twitter
WhatsApp

ادب سے متعلق نئے مضامین