کھانا کھانے کے بعد عیان اٹھ کر اپنی امی کے پاس آیا انکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیکر تایا کی فوتگی کی اطلاع دی
اسکی امی رونے لگیں
امی میں آپکو اسی لئے نہیں بتانا چاہ رہا تھا آپ جانتی ہیں نا موت زندگی اللہ کے ہاتھ میں ہے
جی بیٹآ ۔۔۔لیکن
لیکن ویکھن کچھ نہیں اب آپ بالکل نہیں روئیں گی ۔۔
انکے گلے میں ہاتھ ڈال کر انہیں بہت آرام سے انکے کمرے میں چھوڑ کر وہ گیسٹ روم کی طرف چلا گیا کیونکہ اس کے کمرے میں تو وہ معصوم وجود سویا ہوا تھا
رات کے تین بج رہے تھے کہ اچانک ایک زور دار چیخ سے اسکی آ نکھ کھلی
نہیںںںںںںںںںں چھوڑ دو مجھے
مجھے واپس جانے دو
میں یہ سب نہیں کروں گییییییی
وہ دوڑتا ہوا اپنے کمرے کے پاس آیا وہ نیندوں میں چلا رہی تھی اس نے اسکو جگانے کی بہت کوشش کی لیکن وہ چیخے ہی جا رہی تھی۔
اسنے کس کر اسکے منہ پر ہاتھ رکھ دیا جس سے وہ ایک دم ہوش میں آگئ جھٹکے سے اٹھ کر اسنے اپنی گہری آنکھیں کھول لیں
بڑی بڑی آنکھوں سے وہ اسکو دیکھ رہی تھی ۔۔۔
عیان کا
ہاتھ ابھی بھی اسکے منہ پر تھا وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے تبھی اس نے عیان کو زور سے دھکا دیا وہ پیچھے ہٹا تو شرمندگی محسوس کرنے لگا کیونکہ اسکا ہاتھ اسکے منہ پر نشان چھوڑ گیا تھا
سوری آپ چیخ رہیں تھیں اسی لیے منہ پر ہاتھ رکھنا پڑا
عیان نے نظریں پھیر کر کہا
کون ہو تم اور میں یہ کہاں ہوں کیوں لائے ہو مجھے یہاں وہ بھی دوپٹہ سر پر اوڑھ کر غرائ
چہرہ اب اسنے بھی مکمل چھپا لیا تھا
آپ آج میری گاڑی سے ٹکرا گئیں تھیں
ایک دم اسے سب کچھ یاد آیا اور اس نے ڈر کر آنکھیں میچ لیں ۔۔ عیان نے اسکی آنکھوں میں آیا ڈر نہیں دیکھا تھا ۔۔۔ میں جانا چاہتی ہوں
ابھی نہیں آپ آرام کریں صبح میں خود آپکو آپکے گھر چھوڑ آؤں گا ۔۔۔
گھررر
اسنے یہ کہا اور زاروقطار پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی
کیا ہوا دفعتاً عیان کے قدم اسکی طرف بڑھنے لگے جسے دیکھتے ہی اسنے اپنا منہ مزید دوپٹہ میں چھپا لیا
عیان نے ایسی لڑکی آج تک نہ دیکھی تھی اسے پا لینے کی حسرت اس کے دل میں اسی لمحے جاگ گئ تھی
ٹھیک ہے میں چلتا ہوں آپ سو جائیں لیکن پلیز زرا خیال رکھئے گا میری امی سو رہیں ہیں انکی طبیعت ٹھیک نہیں اب اس طرح نہ چلائیے گا
سوری اب ایسا نہیں ہوگا
ہممم یہ کہ کر وہ کمرے سے باہر چلاگیا
لیکن نیند اسکو اسکے بعد نہ آئ۔۔۔
اگلے دن جب وہ کمرے میں بیٹھی ہوئی تھی کہ دروازہ پر دستک ہوئ
آجائیں۔۔۔۔۔۔۔
فاطمہ بیگم اسکے کمرے میں چہرے پر ڈھیروں مسکراہٹ سجائے داخل ہوئیں
اسلام وعلیکم بیٹا۔۔۔۔۔۔۔ اب کیسی طبعیت ہے آپکی۔۔۔
کالے لمبے بال ۔۔۔گہری گول آنکھیں جن میں اداسی صاف جھلک رہی تھی کانپتے عنابی ہونٹ جو دل میں چھپے ڈر کی گواہی دے رہے تھے
گورا معصوم چہرہ ۔۔اپنے اوپر ڈھیروں تھکان لئے ہوا تھا۔۔۔
میں ٹھیک ہوں آپ سب کا بہت شکریہ
نہیں بیٹآ ہم تو بہت شرمندہ ہیں آپکے گھر والے بھی پریشان ہو رہے ہونگے۔انکا نمبر دے دیں انھیں بھی اطلاع دیتے ہیں
نہیں آنٹی میرا یہاں کوئ نہیں ہے میں یہاں پڑھنے آئ ہوں ہوسٹل میں رہتی ہوں ۔۔۔
اسے کچھ سمجھ نہ آیا تو جھوٹ بول دیا۔۔۔
جاری ہے
شیخ زادی