23/02/2025 18:09

روزنِ تقدیر قسط نمبر 31

#قسط_نمبر_31

#از_قلم_شیخزادی

#روزن_تقدیر

#episode_31

#rozan_e_taqdeer

#strong_heroine_based

#caring_hero_based

#no_more_forced_marriages_base

#evil_genius_villian_base

ادھر عباد امریکہ پہنچ گیا تھا اپنے تمام تر کاموں کو وہ امریکہ سے ہی لیڈ کرتا تھا اس کی تمام تر ٹیم امریکہ میں تھی کسی کو شک نہ ہو اس کۓ وہ کینیڈا میں زیادہ عرصہ گزارتا امریکہ میں فیملی کے نام پر صرف سنبل کو سب جانتے تھے جبکہ اس کی اصل فیملی جن کو وہ دل و جان سے چاہتا تھا اس کی بہن اور اس کے بھانجا بھانجی کینیڈا میں تھے تاکہ اگر کبھی کچھ اوپر نیچے ہو تو آمنہ اور اس کے بچوں کو کوئ تنگ نہ کر سکے۔۔۔
ہر اک پل ہر اک لمحہ ہر اک واقعہ عباد کی زندگی کا ہمیشہ اس کی پلیننگ کے مطابق ہوتا۔۔۔۔۔

عباد اک اندھیرے کمرے سے گزرتا ہوا دوسرے اندھیرے کمرے میں گیا وہاں اک سکیورٹی لاک تھا اس کو کھولتے وہ سیدھا اک کمرے میں گیا جہاں بہت سے لوگ الگ الگ کام کرنے میں مصروف تھے
اپنا لیپ ٹاپ اک بندے کو دیتے وہ کرسی پر بیٹھ گیا ۔۔۔۔

سیم سارا ڈیٹا اس میں جلدی ٹرانسفر کردو ہونٹوں سے سیگریٹ لگاتا وہ آرڈر دینے لگا
اوکے سر مقابل نے اس کی بات سنتے ہی لیپ ٹاپ پر کام شروع کردیا
سر آپنے پچھلے کسی دن کوئ ڈیوائس لگائ تھی کیا لیپ ٹاپ میں سیم کسی انویلڈ ڈیوائس کی اکسیس دیکھتا عباد سے پوچھنے لگا
نہیں کیوں ۔۔۔ عباد ہوا میں دھواں چھوڑتا اک دم ماتھے پر بل لاتے ہوۓ پوچھنے لگا
سر یہاں کسی ڈیوائس کے انسرٹ ہونے کا لکھا ہے سیم ڈرتے ڈرتے بتانے لگا
کیا مطلب ہے تمھارا اس لیپ ٹاپ کو میں تمھارے علاؤہ کسی کو ہاتھ بھی نہیں لگانے دیتا کس وقت ہوا ہے یہ۔۔۔۔عباد جارحانہ انداز میں بولا
سر اک منٹ ۔۔۔ میں پتا کرتا ہوں
سر یہ پیر کے دن ہوا ہے تقریباً 10 بجے ۔۔۔۔۔
عباد کرسی کو دھکیلتا ہوا سیدھا اٹھا اور تیزی سے باہر چلا گیا
باہر آتےہی اس نے لیزا کو فون ملایا
جی سر۔۔۔۔ لیزا نے اک ہی رنگ میں فون اٹھا لیا
میرے پیچھے کوئ میرے آفس میں آکر میری چیزوں میں گھس گیا اور تم لوگوں کو پتا بھی نہیں چلا وہ حلق کے بل چلاتے ہوۓ بولا
لیزا تو کچھ بولنے کے قابل ہی نہیں رہی
ابھی مجھے سارے کیمروں کی ریکارڈنگ بھیجو ۔۔۔۔۔۔ فوراً
شدید غصے کی عالم میں وہ گاڑی میں بیٹھا اور خود ڈرائیو کرتا نکل گیا
گھر پہنچ کر اس نے اپنا لیپ ٹاپ کھولا تو لیزا اسے ساری ریکارڈنگ بھیج چکی تھی ۔۔۔ وڈیو میں وہ عیان کے ساتھ بیٹھا باتیں کر رہا تھا اتنے میں فون آیا اور عباد لیپ ٹاپ اٹھا کر چلا گیا ۔۔۔۔
تھوڑی دیر عیان نے فائلز سمیٹیں اور وہ بھی وہاں سے چلا گیا۔۔۔۔ اس کے بعد آفس پورا ٹائم خالی رہا نہ کوئ آیا نہ گیا
عباد کو سمجھ نہیں آیا کہ اس وقت تو اس کا لیپ ٹاپ تو اس کے ہی پاس تھا تو کوئ کیسے اکسیس کرسکتا ہے ۔۔۔۔
یا تو سیم سے غلطی ہوئی ہے یا پھر لیزا نے کوئ لاپرواہی دکھائ ہے جو بھی ہے میرے معاملے میں لاپرواہی بہت مہنگی پڑے گی۔۔۔۔۔ یہ کہتا وہ اپنے کمرے میں چلا گیا

,*****************************

میرے پیدا ہونے پر میری امی کا انتقال ہوگیا میرے بابا جو اک اور بیٹا چاہتے تھے ۔۔۔۔ بیوی کی موت اوپر سے بیٹی کی پیدائش کو اپنی بد نصیبی سمجھ بیٹھے مجھے تو انہوں نے ہمیشہ ہی بوجھ سمجھا مارنا پیٹنا اک عام سی بات تھی جب یہ سب میرے لۓ ناقابل برداشت ہوگیا تو میں وہاں سے بھاگ گئ ۔۔۔۔۔
اب بھاگ تو گئ تھی لیکن رہنے کے لۓ کوئ جگہ نہیں تھی خاندان میں تو مجھے سب ہی منہوس سمجھتے تھے اس وقت میری عمر بھی اتنی نہیں تھی کہ کوئ فیصلہ کر پاتی اک دوست تھی آمنہ ۔۔۔۔ میں اس کے گھر چلی گئ
وہاں آمنہ کی امی نے مجھے بہت پیار دیا سب میرے ساتھ بہت اچھے سے رہتے عباد بھائ امریکہ گۓ ہوۓ تھے تو مجھے وہاں رہنے میں کوئ پریشانی نہیں ہوئ۔۔۔۔
وقت گزرتا گیا میں آمنہ کے ساتھ بہت اچھے سے رہتی اسی کے ساتھ اسکول جاتی میرے کپڑے وغیرہ کسی چیز کے لۓ بھی مجھے کوئ پریشانی نہیں تھی وقت بہت اچھے سے گزر رہا تھا ۔۔۔پھر عباد بھائ کی پڑھائ ختم ہوگئ اور وہ پاکستان واپس آنے لگی
یار ماہشان میں کیا کروں میں نے کہا بھی ہے امی کو کہ تمھیں رہنے دیں لیکن عباد بھائ کے رہتے امی نہیں مان رہیں میں کیا کروں آمنہ ماہشان کو چپ کرواتے ہوۓ بولی
ان کو بولو بے شک مجھے نہ رکھیں بس بابا کو مت بلائیں مجھے نہیں جانا ان کے پاس واپس ۔۔۔ماہشان ہچکیوں سے روتی آمنہ کی منتیں کرنے لگی
ارے یار رونا تو بند کرو میں کرتی ہوں کچھ آمنہ اسے گلے لگاتی پیار سے سمجھانے لگی
امی مت بلائیں نہ اس کے بابا کو آمنہ اپنی امی کو سمجھا رہی تھی لیکن وہ اس کی اک بھی سننے کو تیار نہیں تھیں
بیٹا عباد آجاۓ گا یوں جوان لڑکے کے ساتھ اک لڑکی کا رہنا ٹھیک نہیں لوگ باتیں بنائیں گے
امی اس کے بابا اور بھئیا اسے ماردیں گے
نہیں بیٹا ایسا نہیں ہوتا وہ ایسا کچھ نہیں کریں گے دیکھ لینا ماہشان سے دوری انہیں بھی کھا رہی ہوگی
اچھا امی کب آرہے ہیں وہ۔۔۔۔ آمنہ نے اپنی امی کی باتوں سے اچھے کی امید لگالی
ہمارے لۓ یہ تب ہی مر گئ تھی جب یہ گھر سے بھاگی تھی اب اسکا ہم سے اور ہمارا اس سے کوئ تعلق نہیں ۔۔۔۔۔ ماہشان کا بھائ تیز آواز میں تقریباً چلاتے ہوۓ بولا جبکہ اس کے بابا آنکھوں میں غضب ناک غصہ لۓ ماہشان کو گھور رہے تھے
آپکو رکھنا ہے اسے رکھیں ورنہ پھینک دیں کہیں بھی لیکن اس بے حیا کو ہم اپنے گھر اب دوبارہ نہیں رکھیں گے یہ کہتے وہ گھر سے نکل گۓ
ماہشان وہیں بیٹھی روتی رہی ۔۔۔۔
امی اب تو اس بیچاری کا کوئ نہیں بچا پلیز اسے رہنے دیں یہیں آمنہ اپنی امی سے التجا کرنے لگی ۔۔۔ درا بیگم جو اب ماہشان سے پیچھا چھڑانا چاہتی تھیں یوں اس کے بھائ اور باپ کے رد عمل سے شدید پریشان ہوگئیں۔۔۔اوپر سے آمنہ کی ضد انہیں زہنی ازیت میں مبتلا کر رہی تھی۔۔۔
ٹھیک ہے۔۔۔۔ سخت لہجے میں حامی بھرتی وہ وہاں سے چلی گئیں
شروع شروع میں تو انہوں نے اس پر ترس کھا کر اسے رکھ لیا تھا لیکن اب آمنہ بڑی ہو رہی تھی ضروریات بڑھ رہی تھیں کب تک وہ اسے پال سکتی تھیں آمنہ اس میں اور ماہشان میں کوئ فرق بھی نہیں کرنے دیتی تھی ہر چیز میں خرچہ ڈبل ہوتا اور اب کالج میں ایڈمیشن کا وقت آگیا تھا ماہشان پڑھائی میں اتنی اچھی بھی نہیں تھی کہ اسکالرشپ لے پاتی اب اگر آمنہ کو اچھے کالج بھیجا تو اسے بھی بھیجنا پڑھتا ۔۔۔۔ اور اگر اسے کسی سستے کالج بھیجا تو آمنہ نہیں مانے گی
ردا بیگم شدید پریشانی میں مبتلا تھیں اب انہیں ماہشان سے کوئ ہمدردی کوئ لگاؤ محسوس نہیں ہوتا اور اس کا اظہار وہ آمنہ کی غیر موجودگی میں کر دیتی تھیں
بات سنو ماہشان کو بلاتی ردا بیگم اپنے کمرے میں چلی گئیں۔
جی آنٹی۔۔۔ ماہشان بھی اب زمانے کی کی تلخیاں برداشت کرتے کرتے تلخ ہوتی جا رہی تھی اس سب کے باوجود بھی وہ کسی سے بد تمیزی نہیں کرتی تھی
ات سنو میری کان کھول کر میرے پاس کوئ درخت نہیں لگا کی ساری زندگی تمہیں پالوں تمھیں یہاں اسی لۓ رکھا ہےکہ میری بیٹی کو تم نے اپنی باتوں میں پھنسا لیا ہے اب خاموشی سے جس کالج میں میں بول رہی ہوں اس میں ایڈمیشن لو ورنہ اک سیکنڈ نہیں لگاؤں گی گھر سے باہر پھینکنے میں اور آمنہ کے سامنے میرا نام لیا تو مجھ سے برا کوئ نہیں ہوگا۔۔۔ردا بیگم ماہشان کے بازو کو سختی سے پکڑتی اس کے کانوں میں اک اک لفظ چبا کر بولیں
ا چھا آنٹی۔۔۔۔ اپنے ہاتھ کو سہلاتی نم آنکھیں لۓ وہ ان کے کمرے سے چلی گئ
ڈائننگ ٹیبل پر سب بیٹھے تھے آج عباد گھر واپس آگیا تھا ۔۔۔تو پھر کہاں ایڈمیشن لے رہی ہے میری بہن ۔۔۔۔۔ عباد آمنہ سے بڑے پیار سے مخاطب ہوا
بھائ فکر نہ کریں سارے بہترین کالجز میں ہے فارم سبمٹ کیا ہے ہم دونوں کا
ویری گڈ عباد کھانا کھاتے ہوۓ ماہشان کو دیکھتے ہوۓ بولا
مجھے نہیں پڑھنا کسی بڑے کالج میں مجھے گورنمنٹ کالج میں پڑھنا ہے ۔۔۔۔۔ ماہشان کھانے کھاتے کھاتے نیچے نظریں کۓ بولی
کیوں بھئ ۔۔۔۔ مجھے تو نہیں پسند گورنمنٹ کالج تم وہیں جاؤ گی جہاں میں جاؤگی دیٹس اٹ آمنہ ہنستے ہوۓ ماہشان سے بولی
نہیں مجھے اب میری زندگی اپنی مرضی سے گزارنی ہے اپنے فیصلے میں سب خود کروں گی مجھے نہیں جانا کسی بڑے کالج بس کہ دیا ۔۔۔۔ یہ کہتی ماہشان ڈائننگ ٹیبل سے اٹھتی ہوئ چی گئ
امپریسو ۔۔۔۔ عباد دل ہی دل میں ماہشان کو دیکھ کر بولا
آمنہ کو ماہشان کا یہ رویہ سمجھ نہیں آیا تو وہ اس کے پیچھے بھاگی۔۔۔۔ردا بیگم اسے پیچھے سے آوازیں لگاتی رہیں لیکن آمنہ نے انکی ایک نہ سنی
یہ کیا چل رہا ہے امی گھر میں ۔۔۔۔۔ عباد کھانا کھاتے کھاتے ردا بیگم سے پوچھنے لگا
بیٹا آمنہ کی دوست ہے یہ بچی اس کے گھر والوں نے اسے اپنانے سے انکار کردیا ہے اسی لۓ آمنہ نے اسے یہاں رہنے دیا لیکن اب اللّٰہ جانے اسے کیا ہوگیا ۔۔۔۔۔ردا بیگم بیٹے کے سامنے اپنی کہی ہر بات چھپاتے ہوۓ بولیں
ہممم ۔۔۔۔۔۔ چلیں جہاں کہ رہی ہے وہیں کرادیتے ہیں اس کا ایڈمیشن اس کی مرضی کم سے کم ہم نے تو فرق نہیں کیا نا وہ کھانا ختم کرتا اٹھتے ہوۓ بولا اور سیدھا اپنے کمرے میں چلا گیا
ردا بیگم تو بہت خوش تھیں سانپ بھی مر گیا تھا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹی تھی
کیا ہوگیا ہے ماہشان تمھیں کیوں نہیں جانا میرے ساتھ۔۔۔۔آمنہ کمرے میں آتی ماہشان سے ناراضگی ظاہر کرتے ہوۓ بولی
آمنہ میں اب اپنے فیصلے خد کرنا چاہتی ہوں مجھے نہیں انٹرسٹ پڑھائ میں ۔۔۔۔ میں نہیں جانا چاہتی کسی بڑے کالج میں مجھ سے زبردستی نہیں کرو۔۔۔۔ ماہشان جھنجھلائے ہوۓ لہجے میں بولی ردا بیگم کا اک اک الفاظ تیر کی طرح اس کے دل میں چبھ رہا تھا
چلو جیسی تمھاری مرضی کم سے کم اپنا موڈ تو ٹھیک کرلو

جاری ہے۔۔۔۔🌹

Facebook
Twitter
WhatsApp

ادب سے متعلق نئے مضامین