دروازے کے کھٹکنے کی آواز سے ماہشان نے سر اوپراٹھا کر دیکھا۔۔۔ آنکھیں آنسوؤں سے لال تھیں ۔۔۔
کون ۔۔۔۔۔۔!؟؟؟؟؟
کپکپاتے ہونٹوں سے پوچھا گیا ۔۔۔
عیان نے گہرہ سانس لیا اور کہا مجھے آپ سے اک بات کرنی ہے
اک منٹ۔۔۔۔۔ ماہشان نے اچھے سے دوپٹہ اوڑھ کر دروازہ کھولا۔۔۔۔
عیان کی نظر ماہشان کی آنکھوں پر پڑی ۔۔۔آپ رو رہی تھی۔ ۔۔۔
اک دم اپنی نظریں نیچے جھکاتے ماہشان بڑے ضبط سے بولی کوئ کام تھا آپ کو ۔۔۔لیکن دل تو چاہا تھا زور زور سے رودے لیکن یوں کسی کے سامنے اپنے دل کا ہال ظاہر کردے وہ اتنی کمزور بھی نہیں تھی
کیا آپ مجھ سے نکاح کریں گی ۔۔۔۔ عیان نے بنا کوئ تمہید باندھے کہا
۔نہیں۔
ماہشان نے بھی صاف جواب دیا ۔۔۔
اور دروازہ بند کرنے لگی عیان کو کہیں نہ کہیں یہ لگتا تھا کہ وہ فوراً ہی مان جائے گی کیونکہ اسے اس کے تحفظ کی ضرورت ہے اک چھت کی ضرورت ہے جو اسے عیان دے دے گا ۔۔۔عیان کو لگا تھا ایسا کر کے وہ اس پر احسان کر رہا ہے ۔۔۔۔لیکن مقابل کا یہ جواب سن کر اسے اچانک طیش آگیا کیونکہ شاید مرد کتنا ہی اچھا اور نیک دل کیوں نہ ہو عورت اسے مٹھی میں بند پسند آتی ہے
وہ چاھتا ہے وہ جو کہے عورت ویسی ہی ہوجاے ۔۔۔ مرد عورت کو ہمیشہ اپنا احسان مند دیکھنا چاہتا ہے اور اس وقت عیان کی سوچ کے مطابق اس نے جواب نہ دیا تو وہ بے قابو ہوگیا
کیوں پوچھ سکتا ہوں دروازے پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوے لب بھینچتے ہوے بولا
کیوں نہیں ۔۔۔۔پوچھ سکتی ہوں اس بار ماہشان نے بھی غراتے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا ۔۔۔
یہ میرے سوال کا جواب نہیں ہے مس ماہشان۔۔۔
ماہشان کے کانوں میں گویا کسی نے گرم لوہا ڈال دیا ہو ۔۔۔
اسے زور سے دھکا دیتے ماہشان نے فوراً دروازہ بند کردیا۔۔۔۔
دروازے پر اک زوردار مکہ مار کر وہ اپنے کمرے میں آگیا ۔۔۔
اپنا کمرہ اس نے تقریباً تیس نہس کردیا تھا
شاید وہ اس لڑکی سے بے انتہا محبت کرنے لگا تھا لیکن اسے اس بات کا ابھی علم نا تھا۔۔۔
صبح جب اس کا غصہ ٹھنڈا ہوا تو اسے اپنے کیے پر بے پناہ شرمندگی ہوئ سب سے پہلے اس نے ماہشان سے معافی مانگنے کا سوچا
جو بھی ہے اظہار رائے کی سب کو اجازت ہے میں یوں انہیں پریشرائز نہیں کر سکتا
جیسے ہی وہ ماہشان کے کمرے میں آیا کمرہ بالکل خالی تھا ۔۔۔ملازم کو بلا کر اسنے ماہشان کا جاننا چاہا کہ وہ کہاں ہے تو ملازم نے اسے بتایا کہ سر صبح سے ہی کمرہ خالی ہے۔۔شاید وہ چلی گئں ہیں ۔۔۔
کیا مطلب چلی گئں ہیں ۔۔۔
عیان غصہ ضبط کرتے ہوئے بولا
سر مجھے نہیں معلوم ۔۔۔
عیان بھاگتا ہوا کمرے میں آیا اور اپنا فون ڈھونڈنے لگا۔۔۔ کہاں ہو تم ماہشان تمھیں خود کو یوں خطرے میں نہیں ڈالنا چاہیے تھا۔۔
جاری ہے
شیخ زادی