عیان کے جانے کے بعد کئ گھنٹے وہ وہیں دروازے سے لگے بیٹھی رہی اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اب کیا کرے
کبھی ایسا وقت تھا یوں کسی کے اظہار اور شدت کے لئے وہ پاگل تھی لیکن اب نہ وہ دل تھا نہ جزبات نہ سوچ اب تو یہ ماہشان بھی پہلی والی ماہشان نہ تھی آنکھوں کے آگے بچپن کی تلخ یادیں یاد آنے لگیں ۔۔۔۔
وہ پانچویں کلاس میں تھی اک دن اپنے گھر کے باہر کچھ لڑکیوں کو کھیلتے دیکھا تو اس کا دل چاہا کہ وہ بھی ان کے ساتھ کھیلے ۔۔۔۔
چھوٹی بچی تھی باپ بھائ کی روک ٹوک کو نہیں سمجھتی تھی کھیلنے نکل گئ
اسے بہت مزا آرہا تھا معصوم بچپن تھا کچھ خوشی کے پل سمیٹ رہی تھی کہ اک گرج دار آواز آئ
ماہشان
ماہشان اک دم ڈر کے پلٹی وہیں اس کے بابا کھڑے تھے وہ تیز تیز چلتے اس کے پاس آئے اور اسے گھر میں لے گئے ۔۔۔
بھائ نے تو اسے خوب مارا بھی ۔۔۔ وہ رو رو کر معافی مانگتی رہی ۔۔۔۔ پھر یہ معمول سا بن گیا وہ کچھ غلط کرتی پھر اسے مارا جاتا
اب وہ نویں کلاس میں تھی اور اب اسے مار سے کوئ فرق بھی نہیں پڑھتا تھا ۔۔۔۔
یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ وہ ڈھیٹ ہوگئ تھی ۔۔
اسے اپنے بابا اور بھائ پر بے انتہا غصہ تھا ۔۔۔ اب وہ جان بوجھ کر وہی کرتی تھی جس کام کو وہ منع کرتے تھے
ایسا ہی ہوتا ہے جب کسی پر بے جا سختی کی جاتی ہے۔۔۔
اور آج کل یہ بات بہت عام ہے کہ ماں باپ بچوں پر بے جا روک ٹوک کرتے ہیں ان پر شک کرتے ہیں نتیجتاً بچے ضدی ہوجاتے ہیں ماں باپ پر سے اعتبار کھو دیتے ہیں اور پھر ماں باپ کی صحیح بات بھی انہیں غلط لگتی ہے۔۔۔ایسے ہی بچے اکثر وہ قدم اٹھاتے ہیں جو فرینڈلی انوائرمنٹ میں پلے بچے سوچنے سے بھی ڈریں ۔۔۔۔
ماں باپ کی عزت ضروری ہے ڈر تو کبھی نہ کبھی ختم ہو ہی جاتا ہے لیکن اگر آپکا بچہ آپکی عزت کرتا ہے تو وہ آپکا کہا کبھی نہیں ٹالے گا آپکو کبھی رسوا نہیں کرے گا
روک ٹوک ضروری ہے لیکن ہر انسان کی عزت نفس ہوتی ہے سختی ایسی ہو کہ وہ عزت نفس کبھی مجروح نہ ہو ۔۔۔ آپ اگر کسی چیز سے بچے کو روک رہے ہیں تو اس کے بدل میں بچے کے ساتھ کوالٹی ٹائم گزاریں اسے خد سے دور نہ کریں ۔۔۔
ماہشان اب اپنے بابا اور بھائ سے بد ظن ہو گئ تھی تبھی اسے فرسٹ ٹائم کسی لڑکے نے پروپوز کیا ۔۔۔۔
بظاہر تو اسنے منع کیا لیکن دل ہی دل میں اسے بڑا اچھا لگا ۔۔۔
اسکول سے واپسی پر بوائز اسکول کے لڑکے اکثر لڑکیوں کا پیچھا کرتے ہوے ہوٹنگ کرتے
وہ ظاہر تو ایسا کرتی کہ اسے بہت برا لگ رہا ہے لیکن اپنا راستہ اسنے کبھی چینج نہیں کیا وہ چاہتی تو دوسرے راستے سے بھی گھر چلی جاتی لیکن اسے یہ سب اچھا لگتا تھا ۔۔
اک دن اس کے بھائ نے کچھ لڑکوں کو اس کے پیچھے ہوٹ کرتے دیکھ لیا ان لڑکوں کو تو اسنے کچھ نہ کہا لیکن گھر جاکر ماہشان کو اتنا مارا کہ بچاری بیمار پڑھ گئ ۔۔۔
ماہشان کے دل میں آگ لگی تھی اس کا بس چلتا تو وہ کیا کچھ نہ کر جاتی ۔۔۔۔۔
کچھ دن بعد جب اسکی طبیعت ٹھیک ہوئ تو وہ اسکول کے لیے تیار ہونے لگی۔۔۔ تھوڑی دیر کے لئے گھر سے دوری اسے سکون دیتی تھی ۔۔۔۔
تم اب اسکول نہیں جاؤگی بہت پڑھ لیا ۔۔۔
بیٹھو چپ چاپ گھر میں۔۔۔
لیکن بابا ابھی اس نے یہ ہی کہا تھا کہ چٹاخ ۔۔۔۔۔
اک زوردار تھپڑ آکر اسکے منہ پر لگا۔۔۔
بد تمیز اب زبان چلائے گی اس کے بابا نے تھپڑ مار کے کہا ۔۔۔۔
بابا اسے صرف ڈانٹا کرتے تھے آج انہوں نے اس پر ہاتھ اٹھایا تھا۔۔ اپنی ماں کے ساتھ تجھے بھی مرجانا چاہیے تھا یہ کہ کر وہ چلے گئے ۔۔
ماہشان پورا دن روتی رہی ۔۔۔اب اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ یہ گھر چھوڑ کر چلی جائے گی ۔۔
اب وہ دوبارہ نہیں روۓ گی
اپنی آنکھوں سے آنسوں پونچھتے وہ اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔۔
ضروری سامان جلدی جلدی بیگ میں بند کرکے جتنے پیسے زیور گھر میں تھا وہ لیکر گھر سے چلی گئ ۔۔۔
اک وعدہ اس نے خد سے کیا کہ اب وہ کبھی واپس یہاں نہیں آئے گی ۔۔۔۔
آج پھر اسے یہی فیصلہ کرنا تھا لیکن کسی غصہ میں نہیں بلکہ وہ جانتی تھی کہ وہ زیادہ دیر چھپ کر نہیں رہ سکتی وہ لوگ اسے ڈھونڈ ہی لیں گے اور پھر عیان تو کیا کوئ بھی اسے عزت سے اپنے ساتھ نہیں رکھے گا وہ عزت ہی تو تھی جس کے لئے وہ اتنی بے مول ہوگئ تھی ۔۔۔
اس میں ہمت نہ تھی نہ تو سچ بتانے کی نہ ہی چھپانے کی ۔۔۔۔
وہ اٹھی سامان پیک کیا اور چپ چاپ بنا کوئ آہٹ پیدا کۓ وہ گھر سے نکل گئ عیان اک اچھا لڑکا تھا ۔۔۔
ماہشان آج بہت غمزدہ تھی
پاک مردوں کے لئے پاک عورتیں
یہ بات اس کے زہن میں بار بار آرہی تھی وہ خود کو کسی کھائ میں موجود محسوس کر رہی تھی
درد تھا تو غضب کا تھا
دل جیسے کسی کی مٹھی میں ہو ۔۔۔
لیکن وہ جانتی تھی عیان اسے سچ جاننے کے بعد کبھی وہ عزت نہیں دے گا جو ابھی دیتا ہے ۔۔۔۔
گھر سے نکل کر وہ بیشاہ ہوٹل چلے گئ قریب فلحال وہی ہوٹل تھا ۔۔۔۔
ہوٹل کافی مہنگا تھا اسی لۓ اسے یہاں سے جلد سے جلد نکلنا تھا۔۔۔ وہ کمرے کے کونے میں بیٹھی تھی ۔۔۔۔ شدت غم سے اسکا برا حال تھا ۔۔۔
وہ وہیں بیٹھے بیٹھے سو گئ ۔۔۔
خواب میں اس نے خد کو اندھیری سیڑھیوں سے اوپر آتے دیکھا اوپر اک کشادہ چھت تھی جس سے روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نظر آرہا تھا ۔۔۔۔
دروازے پر تیز تیز ناک سے اسکی آنکھ کھلی ۔۔۔۔
آنکھ مسلتے ہوے وہ کھڑی ہوئ دل جیسے تیز تیز دھڑکنے لگا اسے ڈر لگ رہا تھا ۔۔۔۔
دروازہ کھولنے سے پہلے اس نے کانپتے کانپتے پوچھا ۔۔۔
کون ۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟
عیان علی خان!!!!!!!!!
مقابل نے رعب دار لہجے میں جواب دیا۔
جاری ہے
شیخ زادی