ماضی۔۔۔۔۔
عیان بہت خوش تھا کیونکہ اس کی ٹریننگ بہت اچھی چل رہی تھی سب ہی آفیسرز اس سے بہت خوش تھے ۔۔۔
وہ ہر چیز میں کمال تھا اور اب تو اسکی جلد شادی بھی ہونے والی تھی
اس سے جو اس کی بچپن کی ساتھی تھی جو اسے اس سے بھی زیادہ جانتی تھی ہر غم ہر خوشی دونوں نے بچپن سے اک دوسرے کے ساتھ ہی تو بانٹی تھی
چھٹیاں ہوئیں تو وہ گھر آگیا۔۔۔ فاطمہ بیگم تو بیٹے کے آجانے سے کھل ہی اٹھیں تھیں ۔۔۔
امی سنبل نظر نہیں آرہی جب سے آیا ہوں دکھی ہی نہیں
یہیں ہوگی بیٹا آجکل پڑھائ میں مصروف رہتی ہے
ارے ایسی بھی کیا پڑھائ دیکھتا ہوں زرا میڈم کو ۔۔ وہ ہنستا ہوا شرارتی انداز میں اٹھ کر سنبل کے روم کی طرف بھاگا۔۔۔۔
ہیلو اینی ون از دیئر
کہتا ہوا وہ اس کے کمرے میں داخل ہوا سنبل جو فون پر کسی سے بات کر رہی تھی اسے اک دم دیکھ کر گھبرا گئ۔ اور اس کے ہاتھ سے موبائل نیچے گر گیا۔۔
ارے ارے محترمہ سنبھال کر۔۔موبائل پر کسی عباد کا نام دیکھ کر اسے حیرت تو ہوئ لیکن اگلے ہی لمحے اس نے یہ سوچ کہ نظر انداز کردیا کہ کوئ دوست ہوگا کیونکہ سنبل کی ایسی گیدرنگز کا اسے پہلے سے پتا تھا ۔۔۔
واہ بھئ نیا موبائل کیا بات ہے ۔۔۔
ادھر دو موبائل سنبل اک دم جھپٹ کر بولی
ارے ارے لے لو کھا تھوڑی رہا ہوں تمھارا موبائل عیان نے ہنستے ہنستے بولا۔۔۔۔
یہ بتاؤ آئیں کیوں نہیں مجھ سے ملنے ابھی تک عیان نے شکایتی انداز میں بولا
مصروف تھی سنبل نے اگنور کرتے بولا
اور یہ کیا طریقہ ہے کسی کے کمرے میں آنے کا نہ ناک کیا نہ اجازت لی ۔۔۔ سنبل طنزیہ بولی
اجازت ہاہاہاہاہاہاہا
کیا ہوگیا سنبل ۔۔۔۔
کیوں تمھاری ہی خواہش تھی نہ یہ
اوہ تو اس بات پر تپا ہوا ہے کوئ ارے مجھے تو لگا تھا ہماری صلح ہوگئ ہے
میں کوئ غصہ میں نہیں بلکہ مجھے فلحال کوئ فرق نہیں پڑتا لہزا تم جاؤ یہاں سے ۔۔سنبل جھنجھلا کر بولی
عیان کو پہلے تو عجیب لگا کچھ سنبل کے لہجے میں لیکن اس کی ناراضگی سمجھ کر مسکرا کر چلا گیا ۔۔۔
کرتے ہیں کچھ تمھاری ناراضگی کا میڈم وہ دل ہی دل میں سنبل سے گویا ہوا۔۔
اگلے دن صبح ناشتے کا وقت تھا سنبل کے علاؤہ سب ٹیبل پر موجود تھے ۔۔
سنبل کو کافی دیر ہوگئی امی
ہاں بیٹا آرہی ہوگی میں بلاتا ہوں
فاطمہ بیگم نے اسے روکنا چاہا لیکن وہ نہ رکا دروازے پر ہی اسے سنبل مل گئ ۔۔۔
ارے میڈم آجائیں ناشتہ آپکا انتظار کر رہا ہے
میں اپنے کمرے میں ہی کروں گی ناشتہ سنبل نے بے رخی سے کہا
ایسے کیسے چلو نیچے فوراً ۔۔۔عیان مسکراتے ہوۓ بولا
تم زبردستی نہیں کر سکتے سنبل چیخ کر بولی
ارے میں تو بس بلا رہا تھا تمھیں عیان اس بار سنجیدگی سے بولا۔۔۔
ارے بیٹا عیان آپ آجاؤ سنبل اوپر ہی کرے گی ناشتہ فاطمہ بیگم نے معاملے کو بگڑنے سے بچانے کے لۓ عیان کو بلایا ۔۔۔
اک دم تڑ تڑ تڑ تڑ سیڑھیاں اترتی سنبل نیچے آگئ
واہ بھئ واہ اب میرے اپنے کمرے میں ناشتہ کرنے سے بھی آپ لوگوں کو دقت پیش آ رہی ہے
مجھے میرے ہال پر چھوڑ کیوں نہیں دیتے آپ سب ۔۔۔۔
عیان تو سکتے میں تھا سنبل کا یہ روپ دیکھ کر اسے کل سے کچھ شک ہو تو رہا تھا لیکن اس نے اسے ناراضگی سمجھ کر اگنور کردیا تھا لیکن یہ تو حد تھی وہ امی سے کیسے بد تمیزی کر سکتی ہے۔۔۔
اس سے پہلے وہ کچھ کہتا اک دم شفیق صاحب چلاۓ
سنبل۔۔۔
سنبل اکیلے میں تو فاطمہ بیگم سے آۓ دن بد تمیزی کرتی رہتی تھی اسے فاطمہ بیگم کو دیکھ کر عیان یاد آتا اور پھر وہ زنجیر جو اس کے پیروں میں رشتے کے نام پر بندھی تھی ۔۔۔وہ اب اس رشتے سے آزادی چاہتی تھی۔۔
عباد کے لگژیرئس لائف اسٹائل نے اسے اندھا کردیا تھا اسے رشتے محبت کچھ نہیں چاہیے تھی اسے بس عباد چاہیے تھا
اس بات سے بے خبر شفیق صاحب جو سالوں سے بنا اپنا پلان بگڑتا دیکھ غصے میں آگۓ اور اک زور دار تھپڑ سنبل کے لگایا
شفیق بھائ کیا کر رہے ہیں بچی ہے فاطمہ بیگم نے سنبل کو گلے لگانا چاہا لیکن سنبل انکا ہاتھ جھٹک کر کمرے میں بند ہوگئی
عیان نے آج تک سنبل کو ایسا نہیں دیکھا تھا سنبل تو اسے ہمیشہ اک بہترین دوست کے طور پر ملی تھی منگنی کے بعد بھی ان دونوں کی دوستی میں کوئ فرق نہیں آیا تھا
وہ جانتا تھا سنبل کو لیکن یہ تو وہ سنبل بالکل نہیں تھی۔۔۔
وہ پریشان سا اس کے پیچھے جانے لگا تبھی فاطمہ بیگم نے اسے روکا ۔۔۔ بیٹا ابھی رہنے دو ابھی وہ غصہ میں ہے شام میں کر لینا اس سے بات۔۔۔
عیان اک نظر سنبل کے کمرے پر ڈالتا آنکھوں میں بے چینی لۓ گھر سے نکل گیا۔۔۔
ادھر کمرے میں سنبل نے تو رو رو کر اپنا برا ہال کیا ہوا تھا
اسے اپنے بابا سے یہ امید نہیں تھی کہ وہ اسے اس طرح سب کے سامنے بے عزت کریں گے ۔۔۔
کچھ سوچتے ہوۓ اس نے عباد کا نمبر ڈائیل کیا ۔۔۔
ہیلو میری جان۔۔۔عباد نے بہت پیار سے کہا۔۔۔
مجھے تمہیں اپنے بابا سے ملوانا ہے سنبل نے آنسوں پونچھتے ہوۓ بولا ۔۔
ارے آپ کہیں تو آج ہی آجاتے ہیں ۔۔۔۔ عباد مسکراتے ہوۓ بولا۔۔۔
ایسا ہے تو آجاؤ۔۔۔سنبل تڑخ کر بولی
ارے ارے مائ لو آج ہی تو امریکہ گیا ہوں دو تین ہفتے لگیں گے کام ختم کرنے دو اگلی بار تمھارے ساتھ ہی امریکہ آؤں گا۔۔۔۔
بس۔۔۔۔ سنبل غصے میں آگئ نکل گئے سارے وعدے۔۔۔۔۔۔۔ ا آج ہی آجاؤں۔۔۔۔۔۔۔۔ ماۓ فٹ
بی ہیو مائ لو بی ہیو ۔۔۔
عباد اس بار سنجیدگی سے بولا۔۔۔۔
اسکے یہ کہنے پر سنبل نے فون بند کردیا ۔۔
یہ تمھیں بھاری پڑے گا سنبل ۔۔۔۔
عباد کو جو چیز پسند آجاۓ وہ اسے حاصل کر کے رہتا ہے لیکن سر پر نہیں چڑھاتا ۔۔۔۔
اک گہرا سگریٹ کا کش لیتے ہوۓ وہ سنبل سے دل ہی دل میں گویا ہوا۔۔۔۔
شام میں عیان سنبل کے لۓاس کی پسندیدہ آئسکریم لیکر اس کے کمرے میں گیا
جب جب ان کی لڑائ ہوتی وہ اسے ایسے کی منایا کرتا تھا ۔۔۔
لیکن اسے کیا پتا تھا کہ اب ان سب چیزوں کی کوئی اہمیت نہیں۔۔۔ یہی ہوتا ہے جب ہم کسی سے محبت کرتے ہیں تو اس کا کیا ہوا چھوٹا چھوٹا عمل بھی ہمیں ڈھیروں خوشی دیتا ہے لیکن اگر دل میں محبت نہ ہو تو پہاڑ بھی ریزا لگتا ہے اور یہی ہوا۔۔۔
۔
ہاہاہاہاہاہاہاہا آئسکریم لاۓ ہو ۔۔۔۔اہاہاہاہاہہا سنبل تنظیہ ہنسی ۔۔۔
اور کر بھی کیا سکتے ہو تم لے جاؤں اپنی آئسکریم ہمممم ۔۔۔
تمھیں ہوا کیا ہے سنبل کوئ بات ہے ۔۔عیان اس بار سارے مسئلے سلجھانا چاہتا تھا۔۔۔
او مسٹر پارسا جاؤ یہاں سے اب کیوں آرہے ہو بار بار میرے کمرے میں تمھیں تو یہ سب اچھا نہیں لگتا تھا نا۔۔۔۔
سنبل نے آنکھوں میں نفرت لۓ کہا۔۔۔
تم اچھی طرح جانتی ہو میں نے کن چیزوں کے لۓ منع کیا تھا ۔۔۔۔
واہ واہ مسٹر با کردار تمھارے حساب کتاب ۔۔۔ سنبل نے دونوں ہاتھوں سے تالی بجا کر کہا۔
۔سنبل کچھ ہی دن میں ہماری شادی ہو جاۓ گی میں بس اس رشتے سے اس کا نور اس کا سکون نہیں چھیننا چاہتا تھا۔۔۔باقی میں تمھیں بہت پیار اور عزت دوں گا
یہ میرا تم سے وعدہ ہے۔۔۔
دوں گا ۔۔۔۔۔سنبل نے منہ بنا کر کہا
سنبل کے یوں بار بار اسے ٹون مارنے پر اب اسکی بس ہوگئ تھی آخر وہ چلا اٹھا۔۔۔
مسئلہ کیا ہے آخر تمھارا۔۔۔ہو کیا گیا ہے تمھیں دیکھو میں کل چلا جاؤگا جو بھی ہے ہل کرلو ۔۔۔۔ واپس آؤں گا تو میری ٹریننگ ختم ہو چکی ہوگی ۔۔
تو بس پھر ان شااللہ ہم شادی کرلیں گے میں امی کو بھی بولدیتا ہوں
مجھے اکیلا چھوڑ دو پلیز ۔۔۔۔ سنبل نے منہ موڑتے ہوۓ کہا
عیان بھی غصے میں لمبے ڈگ بھرتا نکل گیا۔۔۔۔
صبح ہی عیان چلا گیا تھا سنبل اس سے ملنے تک نہیں آئ ۔۔۔
دن گزرتے رہے فاطمہ بیگم شادی کی تیاریوں میں لگ گئیں ۔۔۔
سنبل کی بد تمیزیاں ابھی بھی عروج پر تھیں
اول تو وہ کوئ چیز آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھتی اگر دیکھ بھی لیتی تو اس کو سستا کہ دیتی یا پھر کوئ نقس نکال دیتی ۔۔۔
ادھر عباد نے بھی آۓ دن مہنگے مہنگے تحفے دے دے کر اس کا دماغ ساتویں آسمان پر پہنچا دیا تھا۔۔
فاطمہ بیگم تو بس شرمندہ ہو کر رہ جاتیں ۔۔۔
بیٹا آجاؤں فاطمہ بیگم سنبل کے دروازے پر کھڑی تھیں
آجائیں منع کرنے سے کون سا نہیں آئیں گی ۔۔۔
فاطمہ بیگم کو بھی اب غصہ آنے لگا تھا آخر ہر بندے کی برداشت ہوتی ہے ہر وقت کی بدتمیزی آخر بندہ کتنا برداشت کرے لیکن وہ پھر بھی خاموش تھیں کیونکہ وہ
کم سے کم اپنی طرف سے بات کو طول نہیں دینا چاہتی تھیں ۔۔۔
میں شادی کا جوڑا لینے جا رہی ہوں آپ بھی چلو اپنی پسند کا لے لینا۔۔۔
ہممم میری پسند مائ فٹ ۔۔۔۔ مجھے کہیں نہیں جانا ۔۔۔ اب جائیں یہاں سے ۔۔۔
فاطمہ بیگم شدید پریشانی میں نیچے آرہی تھیں کہ فون بجنے لگا
اسلام وعلیکم فاطمہ بیگم نے کال ریسیو کرتے ہی کہا
لیکن مقابل سے جو خبر ملی اس نے ان کے ہوش اڑا دۓ
عیان کے ٹریننگ سینٹر سے خبر آئ تھی کہ عیان کا ٹریننگ کے دوران ہاتھ ٹوٹ گیا ہے جس کی وجہ سے آگے ٹریننگ حاصل کرنا مشکل ہوگا۔۔۔۔
فاطمہ بیگم تو وہیں بیہوش ہوگئیں ۔۔۔۔
کچھ ہی دن میں عیان بھی آگیا فاطمہ بیگم تو بیٹے کی حالت دیکھ کر غم سے نڈھال تھیں اوپر سے اسے فوجی افسر بنے دیکھنے کا خواب بھی ادھورا رہ گیا ۔۔۔
عیان ان دنوں چپ ہی رہتا نہ کمرے سے نکلتا نہ ہی کسی سے بات کرتا ۔۔۔
لیکن سنبل کا اس طرح اسے اگنور کرنا اسے پریشان کۓ ہوۓ تھا
وہ اس کے بدلے رویے کو سمجھ نہیں پا رہا تھا
ادھر سنبل کو اس سے اب کوئ سروکار نہیں تھا وہ تو بس کسی طرح بھی اس رشتے سے آزادی چاہتی تھی۔۔۔
کچھ دن کے بعد فاطمہ بیگم زبردستی عیان کو برآمدے
میں لے آئیں اور اسے شادی کی تیاریاں دکھانے لگیں وہ کافی خوش خوش اسے کپڑے چیزیں جیولری دکھا رہیں تھیں
ارے واہ کس چیز کی تیاریاں چل رہیں ہیں وہ سیب چباتی دھپ سے صوفے پر بیٹھ گئی
کیسی باتیں کر رہی ہو آپکی اور عیان کی شادی کی اور کس کی۔۔۔۔
ہاہاہاہاہاہاہاہا وہ طنزیہ ہنستی ہوئ اپنے کمرے میں چلی گئ
ساری محنت برباد کرواۓ گی بےوقوف لڑکی شفیق صاحب سگریٹ زمین پر مسلتے سیدھے سنبل کے کمرے میں گۓ۔۔۔
کیا حرکت تھی یہ شفیق صاحب اک اک لفظ چبا کر بولے
جو آپنے دیکھا وہ ڈھیٹوں کی طرح بولی
میں اپنی ساری زندگی اک اپاہج اور بیمار انسان کے ساتھ نہیں گزار سکتی ۔۔۔وہ جان کر زور سے بولی تاکہ باہر تک آواز جاۓ
ہلکے بولو کوئ سن لے تو شفیق صاحب اسے چپ کرانے لگے
سننے دیں مجھے فرق نہیں پڑھتا
سنبل کی باتیں عیان اور فاطمہ بیگم پر بجلی بن کر گر رہیں تھیں عیان غصے سے سنبل کے کمرے کی طرف بڑھا
جسے فاطمہ بیگم نے روک دیا
نہیں بیٹا نہیں غصے میں کوئ غلط قدم مت اٹھانا وہ نادان ہے تمھاری اس حالت نے شاید اسے پریشان کردیا ہے آخر کو اسے اپنی پوری زندگی گزارنی ہے اسے ٹائم دو وہ ٹھیک ہو جاۓ گی
نہیں امی بہت ہوگیا یہ سب ایسے نہیں چلے گا۔۔۔عیان نے غصے سے مٹھی بھینچ کر کہا ۔۔
نہیں بیٹا تمھیں میری قسم ہے اسے اک موقع دو ۔۔۔
ماں کی یہ بات سن کر وہ غصے میں اپنے کمرے میں چلا گیا ۔۔۔۔
پاگل ہوگئ ہو کیا لڑکی کوئ سن لے گا شفیق صاحب غصے سے بولے
سن لے بے شک مجھے کوئ فرق نہیں پڑھتا ویسے بھی میں آپ کو کسی سے ملوانا چاہتی ہوں
کیا مطلب ہے تمھارا شفیق صاحب کے ماتھے پر بل آگۓ
بابا میں عباد کو پسند کرتی ہوں اور اسی سے شادی کرنا چاہتی ہوں ۔۔۔۔
سنبل نے اعتراف کیا
سالوں سے میں نے محنت کی ہے ان دونوں ماں بیٹے کو اپنی مٹھی میں کرنے کی اپنی محنت میں یوں ضایع ہونے نہیں دوں گا شفیق صاحب اک اک لفظ چبا کر بولے
جو میرا ہے وہ میرا ہی ہوکر رہے گا چاہے وہ کتنا ہی بیمار کیوں نہ ہوجاۓ چاہے وہ بیڈ پر ہی کیوں نہ آجاۓ شادی تم اسی سے کرو گی شفیق صاحب بہت دھیمی آواز میں بولے
لیکن کیوں بابا سنبل تو شاک ہی ہوگئ
کیونکہ یہ سب کچھ میرا تھا یہ گھر ہمارا بزنس زمینیں کیونکہ میں اس گھر کا بڑا بیٹا تھا لیکن میری اولاد نہ ہوسکی جبکہ عیان پہلے ہوگیا اور جب مجھے اولاد ہوئ تو بیٹی ۔۔۔۔
اور ساری دولت بزنس اور گھر زمینیں عیان کی ہوگئیں کیونکہ اب وہ خاندان کا ولی عہد بن گیا تھا لیکن میں بھی عبداللہ کی موت کے بعد ان دونوں کو یہیں لے آیا تاکہ انہیں کبھی اس بات کی بھنک نہ پڑے اور تمھاری شادی بھی میں اسی لۓ اس سے کرانا چاہتا ہوں۔۔۔
بابا بس اتنی سی بات عباد ان سے کہیں زیادہ امیر ہے رتبے میں مالیت میں ملکیت میں کہیں زیادہ ہے آپ اک بار اس سے مل کر تو دیکھیں ۔۔۔۔اس بار سنبل آرام سے بولی
نہیں جو میرا ہے میں کسی اور کو نہیں دے سکتا یہ سب میرا ہے میں اسے عیان کو کسی صورت نہیں دوں گا شفیق صاحب نے آنکھوں پر بل لاتے مٹھیاں بھینچتے ہوۓ کہا۔۔۔
اگر میں بنا شادی کۓ آپ کو یہ سب دلوادوں تو سنبل نے مکاری سے کہا ۔۔
شفیق صاحب نے اک آبرو اٹھا کر اسے دیکھا ۔۔
پھر جو تم چاہو۔۔۔
پھر آپ دیکھتے جائیں ۔۔۔۔
ہیلو سر کیسے ہیں آپ عباد نے شفیق صاحب اور سنبل کو اپنے ہی اک فائو اسٹار ہوٹل میں ملنے بلایا ۔۔
شفیق صاحب کو اپنی بیٹی کی پسند پر فخر محسوس ہوا ۔۔۔
جی بیٹا میں ٹھیک آپ بتائیں ماشااللہ اتنی چھوٹی عمر میں اتنا سب کچھ واقع قابل داد ہے۔۔۔ شفیق صاحب کو عباد بہت پسند آیا تھا
بس انکل ۔۔۔ جس کو وقت کو مٹھی میں کرنا آجاۓ اور اپنی منزل کو حاصل کرنے کی لگن آجاۓ تو پھر کامیابی ہی کامیابی ہے ۔۔
کچھ پانے کے لۓ گٹس چاہیے ہوتے ہیں بہت کچھ کھو کر ہی بہت کچھ ممکن ہے ۔۔۔عباد خد پر فخر سے تبصرہ کر رہا تھا اور شفیق صاحب تو خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے کہ انکی بیٹی نے ہیرا ڈھونڈا تھا ۔۔۔۔
گھر میں داخل ہوتے وقت دونوں بہت خوش تھے عباد نے آج بھی انہیں مہنگے مہنگے گفٹس دۓ تھے ۔۔۔
بیٹا مجھے معاف کرنا میں نے تمھارے لۓ بہت جلد فیصلہ کیا میں لالچ میں آگیا تھا۔۔۔
بیٹی کا اچھا مستقبل دیکھ کر وہ بہت خوش تھے
عیان انہیں پسند تھا صرف لالچ ہی واحد وجہ نہیں تھی لیکن اب اسکا ہاتھ اور فوج میں نوکری کے کم امکانات نے عیان کی اہمیت کو کم کردیا تھا
ایسے میں عباد جیسے لڑکے کا پروپوزل انکو اک سنہرا موقع لگ رہا تھا اپنی بیٹی کے لۓ۔۔۔۔
گھر میں داخل ہوتے ہی ان کی نظر عیان پر گئ جو خاموش سا بیٹھا تھا انہوں نے اپنی نظر پھیر کر سنبل کے گلے میں ہاتھ ڈالا اور سیدھے اوپر چلے گۓ۔۔۔
صبح ناشتے کے وقت عیان اپنے کمرے سے باہر نہ آیا ۔۔۔سنبل کے رویے کو تو اس نے اب مکمل نظر انداز کردیا تھا اسے فرق بھی نہیں پڑھتا تھا کیونکہ اس وقت اسے
یہی ٹاسک دیا گیا تھا ۔۔۔۔۔
عیان اللہ خان یس سر
آپ کی شاندار پرفارمینس کو دیکھتے ہوۓ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ آپکی ٹریننگ یہیں ختم کردی جاۓ۔۔۔
مطلب سر
مبارک ہو جینٹل میں آپکی ٹریننگ پوری ہوئ لیکن سر ٹریننگ ختم ہونے میں تو ابھی اک دو ہفتے ہیں عیان حیرت سے بولا ۔۔
جی بالکل لیکن ہم چاہتے ہیں آپکی ٹریننگ یہیں ختم ہو اور آپ آج ہی سے اپنے ملک کی خدمت کرنے کا زمہ اٹھائیں۔۔۔۔
جیسا آپ کہیں سر۔۔۔
تو عیان اللہ خان آپکا پہلا ٹاسک اک خفیہ مشن ہے جس کے لۓ آج آپکو اک انجری دی جاۓ گی امید ہے آپ ہمت سے کام لیں گے۔۔۔۔۔۔۔
انجری کا مقصد یہ ہوگا کہ آپ لوگوں کی نظر میں نا اہل ہوجائیں گے اور جو بھی مخبر ہوگا اس کا آپ پر شک نہیں جاۓ گا۔۔۔ ہو سکتا ہے آپ کو کسی دوسرے ملک بھی جانا پڑے ۔۔۔
تو تیار ہیں۔
جی سر عیان نے پورے جوش سے بولا
اسے اگر کسی کی پرواہ تھی تو بس اپنی ماں کی ان کا دکھ اسے پریشان کۓ ہوۓ تھا
کچھ ہی دن میں اس کا اگلا ٹاسک اس تک پہنچ جاۓ گا اس سے پہلے وہ شادی کو نمٹانا چاہتا تھا کیونکہ کیا پتا اسے کہاں اور کتنے دن کے لۓ جانا پڑے
اتنے میں باہر سے آوازیں آنے لگ گئیں چلو شکر ہے اپنے ہی گھر میں قید ہوگئ تھی آج بابا آپ کے ساتھ ناشتہ کرنے کو تو ملا۔۔۔
ارے بیٹا کس نے کیا آپ کو قید آپکا گھر ہے ہمیں تو خوشی ہوتی ہے آپکو دیکھ کر ۔۔۔فاطمہ بیگم بڑے پیار سے بولیں ۔۔۔
اوہ پلیز شٹ اپ۔۔۔ سنبل منہ بنا کر بولی
جب آپ سے کوئ بات نہیں کر رہا تو کیوں بار بار میرے منہ لگتی ہیں ۔۔۔
اس بار فاطمہ بیگم شفیق صاحب کو دیکھنے لگیں کہ شاید وہ اسے روکیں ۔۔۔۔
مجھے کیا دیکھ رہیں ہیں یہی چاہتی ہیں کہ میں آپکی وجہ سے بار بار اپنی بیٹی پر ہاتھ اٹھاؤں شفیق صاحب غصے سے بولے
نہیں بھائ میں ایسا کیوں چاہوں گی وہ روتے ہوۓ بولیں
ہاں ہاں بیٹے کو تو بھر بھر کے میرے خلاف کر ہی دیا باپ کو بھی بھر دیں۔ سنبل نے ان پر صاف بہتان لگایا ۔۔۔
سنبل ۔۔۔۔
عیان کی گرج دار آواز آئ۔۔تمھاری ہمت کیسے ہوئی میری امی سے ایسے بات کرنے کی
عیان آہستہ بات کرو سنبل سے شفیق صاحب اک دم بیچ میں بولے
تو یہ بات آپنے سنبل سے کیوں نہیں کہی
بیٹا بس کرو اس طرح بات بگڑ جاۓ گی فاطمہ بیگم منت کرنے لگیں
سدھری کب ہے جو بگڑے گی مجھے نہیں کرنی آپکے اپاہج ناکارہ بیٹے سے شادی سنبل ہاتھ باندھ کر بولی
وہ دے ہی کیا سکتا ہے مجھے ہے ہی کیا اس کے پاس میں اپنی زندگی کیوں برباد کروں
مجھے بھی لایف اسٹائل چاہیے میرے کچھ خواب ہیں جو آپکا ناکارہ بیٹا پورا نہیں کرسکتا
بیٹا ابھی اس کا ہاتھ ٹھیک ہوجاۓ گا فوج نہ سہی کچھ اور کرلے گا فاطمہ بیگم اسے سمجھانے لگیں
اور کچھ اور کرتے کرتے کتنا وقت لے گا
امی یہ ختم کرنا چاہتی ہے سب تو ختم کریں میں اب سے اور اس کی بکواس اک منٹ نہیں برداشت کرسکتا
ہاہاہاہ چپ چاپ تمھاری خدمت کروں ساری زندگی تو اچھی اور زرا جو خد کے مستقبل کے بارے میں سوال اٹھاؤں تو بکواس
تو کیا چاہتی ہو عیان حتمی انداز میں بولا
سب کچھ سنبل بھی اک دم بولی
مطلب عیان آبرو آچکا کر بولا
تم ابھی اپنا سب کچھ میرے نام کروگے سکیورٹی دو تو مجھے سب منظور ۔۔۔۔۔
کل کو تمھاری جاب نہ ہوسکی یا کچھ مسئلے ہوۓ تو کم سے کم میرے پاس کچھ تو ہو میں غربت سے اپنی زندگی نہیں گزار سکتی
ٹھیک ہے میں پیپرز بنواتا ہوں عیان بنا تاثر دۓ بولا
اس کی ضرورت نہیں وہ بھاگ کر اپنے کمرے میں گئ اور جب واپس آئ تو اس کے ہاتھ میں پیپرز تھے یہ لو سائن کرو
عیان کو اس پر اس وقت بہت غصہ آیا اس نے دستخط کۓ اور امی سے کہا امی بس اب چلیں یہاں سے مجھے ان لوگوں سے کوئ رشتہ نہیں رکھنا
لیکن بیٹا عیان فاطمہ بیگم حیرت سے بولیں
امی شادی کوئ سودا نہیں ہے کہ قیمت دو اور خرید لو ۔۔۔یہ عزت سے شروع ہوتا ہے اور محبت اس کی انتہا ہے
اب پہلی سیڑھی ہی نہیں تو میں اوپر کیسے چڑھوں ۔۔۔
اس لڑکی نے آج اپنی عزت میری نظروں میں کھودی ہے عیان آنکھوں میں غضب ناک غصہ لۓ فاطمہ بیگم سے مخاطب تھا ۔۔۔
واٹ ایور راستہ وہاں ہے سنبل آنکھیں گھما کر بولی اور سیدھی اپنے کمرے میں چلی گئ
شفیق صاحب بھی عیان کے کندھا تھپتھپا کر چلے گۓ کمرے میں وہ اور اس کی ماں اکیلے رہ گۓ
فاطمہ بیگم تو ٹوٹ سی گئیں تھیں عیان انہیں سنبھالنے لگ گیا ۔۔۔
لیکن آج انکے آنسوں تھمنے کو نہ تھے عیان انہیں لیکر کمرے میں گیا ضروری سامان پیک کیا اور وہ دونوں کبھی نہ واپس آنے کے لۓ وہاں سے چلے گۓ
جاری ہے
شیخ زادی