loader image

MOJ E SUKHAN

19/04/2025 09:48

روزنِ تقدیر قسط 17

#قسط_نبمر_17

#از_قلم_شیخزادی

#روزن_تقدیر
#episode_17

#rozan_e_taqdeer

۔۔۔۔۔۔۔۔******۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سنبل کینیڈا ایئرپورٹ پر پہنچ گئ تھی۔۔۔ اس نے سکون کا سانس لیا ۔۔۔۔
اسے لگا تھا عیان اسے لینے آۓگا پر یہاں بھی اسے کچھ گارڈز ہی لینے آۓ اک گاڑی میں بٹھا کر اسے اک ہوٹل کے گۓ۔۔۔۔
ہوٹل میں چیک ان تو کروایا لیکن روم کے بجاۓ پیچھے کے دروازے سے اسے لیکر دوسری گاڑی میں بیٹھ گۓ
سنبل کو ڈر لگنے لگا تھا کہ اتنے میں اک گارڈ نے اسے فون پکڑایا ڈرتے ڈرتے اس نے فون لیا اور کان سے لگا کر ہیلو کہا
ہیلو مائ لو۔۔۔۔۔۔
ڈر سے اس کی آنکھیں کھل گئیں شکر ہے خواب تھا وہ ابھی بھی جہاز میں ہی تھی
ڈر سے اس کا برا ہال ہونے لگا اسے واپس کسی بھی صورت میں عباد کے پاس نہیں جانا تھا
جہاز لینڈ کر گیا اسے کچھ لوگ ریسیو کرنے آۓ تو اس کی جان حلق میں آگئ۔۔۔اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا اتنے میں اک آدمی کا فون بجا ۔۔۔ جی سر
جی ریسیو کرلیا وہ ہمارے ساتھ ہیں
سنبل کو تو لگا جیسے بس اب عباد اسے واپس قید کردے گا اس کی جان نکلنے کو ہی تھی کہ اس گارڈ نے موبائل اس کی طرف بڑھا دیا
لو سر بات کریں گے
ڈرتے ڈرتے اسنے کانپتے ہاتھوں سے فون لیا اور کان سے لگا کر ہیلو کہا۔۔۔
اسلام وعلیکم عیان کی بارعب آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی
شکر عیان یہ تم ہو اس نے سکھ کا سانس لیا ۔۔۔
اسنے ابھی یہی کہا تھا کہ عیان اک دم بولا
جیسا یہ لوگ کہیں ویسا ہی کرنا یہ میرے ہی لوگ ہیں
کہ کر فون بند کردیا
ہیلو عیان عیان وہ کہتی رہ گئ گاڑی اک سنسان جگہ رک گئ وہاں سے اسے نکال کر دوسری گاڑی میں بٹھایا گیا
کام سیکنڈوں میں کیا گیا ا ور پھر وہ دوسرے راستے کی جانب مڑ گئ تھوڑی ہی دیر میں وہ عیان کے گھر کے سامنے اتار دی گئ تھی وہ گاڑی اسے چھوڑ کر فوراً زناٹے سے چلی گئ
سنبل کو حیرت ہوئ لیکن اس نے اگلے ہی پل اپنی تمام تر سوچوں کو جھٹک دیا اور اندر داخل ہوگئ۔۔۔
*****—–*****

ماہشان ناشتے کے بعد فاطمہ بیگم کے ساتھ بیٹھی باتیں کر رہی تھی فاطمہ بیگم اتنے کم دنوں میں ہی ماہشان سے بہت زیدہ اٹیچ ہو گئیں تھیں ۔۔۔۔۔
میڈم کوئ آپ سے ملنے آیا ہے ماریہ نے آکر انہیں سنبل کے آنے کی خبر دی ٹھیک ہے میں آتی ہوں۔ ۔۔۔
آؤ بیٹا عیان کے تایا کی بیٹی سنبل آئ ہے اب وہ بھی کچھ دن یہیں رہے گی ماہشان مسکرا کر سر ہلا کر ان کے ساتھ باہر نکل گئ
سنبل کی نظر جیسے ہی فاطمہ بیگم پر پڑی وہ بھاگتی ہوئ ان کے گلے لگ گئ اور پھوٹ پھوٹ کر رو نے لگی
فاطمہ بیگم بھی اتنے دنوں بعد اسے دیکھ کر روہانسی ہوگئیں تھیں اس کے اس طرح رونے سے انکا دل بھی بھر آیا تھا۔۔۔
آخر کو بچپن سے انکے سامنے پلی تھی پھر ہاجرہ بیگم کے انتقال کے بعد تو انہوں نے اسے اپنی بیٹی کی طرح رکھا تھا۔۔۔
بس کرو بیٹا سنبل کو خد سے الگ کرتی وہ آنسوں پونچھتے ہوۓ بولیں
نہیں چاچی مجھے سزا ملی ہے میں نے آپ لوگوں کے ساتھ جو کیا مجھے اس کی سز۔۔۔۔۔۔
ابھی وہ یہ کہ ہی رہی تھی کہ اسکی نظر ماہشان پر پڑی ۔۔۔۔
اک دم اسے یہ چہرہ جانا پہچانا لگا۔۔۔۔
یہ کون ہیں چاچی۔۔۔سنبل نے ماہشان کی طرف دیکھتے ہوۓ پوچھا ۔۔۔۔
بیٹا یہ سمجھو یہ میری بہت پیاری بیٹی ہیں اور یہ یہیں ہمارے ساتھ رہتی ہیں ۔۔۔۔
اسلام وعلیکم ماہشان نے مسکرا کر سنبل کو سلام کیا سنبل ابھی بھی اسے پہچاننے کی کوشش کررہی تھی وعلیکم السلام کیا میں آپ سے پہلے مل چکی ہوں
سنبل نے اس بار سیدھا ماہشان سے پوچھا۔۔۔۔
نہیں مجھے ایسا کچھ یاد نہیں ماہشان نے نفی میں سر ہلاتے ہوۓ مسکرا کر جواب دیا۔۔۔
اچھا ہوسکتا ہے لیکن مجھے پتا نہیں کیوں ایسا لگتا ہے میں نے آپکو کہیں دیکھا ہے۔۔۔۔۔سنبل ابھی بھی کشمکش میں تھی ۔۔۔۔
اسلام وعلیکم عیان نے دروازے میں گھستے ہی زور سے سلام کیا اس نے دیکھ لیا تھا کہ ماہشان وہیں کھڑی ہے
اس کے سلام کرتے ہی ماہشان نے اپنا منہ سہی سے چھپا لیا ۔۔۔
یہ کیا کر رہی ہو سنبل کو حیرت ہوئ
بیٹا ماہشان پردہ کرتی ہے عیان نامحرم ہے ناں۔۔۔۔۔
اچھا ۔۔۔۔سنبل کو پتا نہیں کیوں ماہشان کو دیکھ کر الجھن سی ہو رہی تھی
عیان کے آتے ہی ماہشان وہاں سے چلی گئ
سنبل میرے ساتھ آؤ مجھے تم سے بات کرنی ہے ۔۔۔۔عیان سنجیدگی کہتا ہوا سیدھا اپنی اسٹڈی میں چلا گیا۔۔۔۔۔

سنبل بھی اس کے پیچھے پیچھے چل دی
ہاں بولو ۔۔۔۔
سامنے بیٹھو اور مجھے سب بتاؤ کون ہے تمھارا شوہر اور کیوں تمھیں قید کۓ ہوۓ تھا
اور سب سے بڑی بات تم نے یہ کیوں کہا کہ وہ تمھیں ماردے گا۔۔۔عیان چہرے پر سرد تاثر لاۓ پوچھ رہا تھا
سنبل نے اک نظر اٹھا کر عیان کو دیکھا اور بولی ابھی بتانا ضروری ہے ابھی میں تھکی ہوئی ہوں تھوڑا آرام کرلوں ۔۔۔۔
ہاں ضروری ہے عیان نے اسی انداز میں بولا۔۔۔
سنبل عیان کو دیکھتی رہ گئ کتنا بدل گیا تھا وہ ایسا تو نہیں تھا ۔۔۔۔
عباد سے میری شادی پانچ سال پہلے ہوئ تھی
شادی کے بعد وہ مجھے امریکہ لے گیا
شروع شروع میں تو وہ میرے ساتھ بہت اچھا تھا ہم خوب گھومتے پھرتے وہ میرا بہت خیال رکھتا لیکن جیسے جیسے دن گزرتے گۓ وہ اپنے کام میں مصروف ہوگیا اور میں بس اکیلی رہ گئ ۔۔۔
امریکہ جانے کے بعد اس نے مجھے کبھی واپس پاکستان بھی نہیں جانے دیا
حالانکہ وہ اکثر پاکستان جایا کرتا تھا لیکن میرے کہنے پر شروع شروع میں تو پیار سے ٹال دیتا لیکن بعد میں اس نے اپنا رویہ ہی بدل لیا ۔۔۔۔
اک دفعہ مجھے بابا کی طبیعت خرابی کی خبر ملی تو اس سے جانے کا کہا ۔۔۔
عباد پلیز ابو کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے مجھے ملوادیں
اور یہ تمھیں کیسے پتا کہ ان کی طبیعت ٹھیک نہیں ۔۔۔۔عباد غصے سے چلایا ۔۔
کیا مطلب عباد بیٹی ہوں میں انکی ۔۔۔۔
یہ میرے سوال کا جواب نہیں عباد نے اپنے ہاتھ سے اسکا منہ پکڑ کر بولا اور دھکہ دے کر اسے نیچے گرادیا۔۔۔آیندہ میں نے دیکھا کہ تم نے پاکستان میں کسی سے کانٹیکٹ کیا ہے تو مجھ سے برا کوئ نہیں ہوگا۔۔۔۔۔
عباد جب سے اسے امریکہ لایا تھا اسنے عباد کے کسی گھر والے کو بھی نہیں دیکھا تھا نہ کوئ آتا تھا نہ ہی جاتا تھا۔ ۔۔
ہاں عباد اکثر و بیشتر ہفتوں مہینوں کے لۓ چلا جاتا تھا وہ امریکہ میں تو گارڈز کے ساتھ کہیں بھی جا سکتی تھی لیکن کسی سے بات چیت کی اسے اجازت نہیں تھی شوپنگ کرتی گھومتی لیکن اکیلے اب وہ اس اکیلے پن سے اکتا گئ تھی ۔۔۔۔
اک دن وہ ہمت کر کے عباد کے پاس آئ
عباد ۔۔۔۔
یس مائ لو
میں بہت اکیلا پن محسوس کرتی ہوں سنبل نے اس کے پاس بیٹھتے ہوۓ کہا
کیوں عباد نے ماتھے پر تیوریاں چڑھاتے پوچھا میں ہوں نا کافی نہیں ہوں ۔۔۔۔
سنبل ڈر گئ نہیں ایسی بات نہیں ہے لیکن جب تم نہیں ہوتے ہو میں اکیلی ہوجاتی ہوں
تو کیا چاہتی ہو کام دھندا چھوڑ کر تمھارے ساتھ بیٹھ جاؤں ۔۔۔
اک اولاد تو دی نہیں تم نے مجھے اب کہ رہی ہو اکیلی ہوجاتی ہوں عباد نے اسے بالوں سے پکڑ کر بولا۔۔۔۔ کیا چاہتی ہو تمھیں آزاد چھوڑ دوں تاکہ تم معشوقیاں کرتی پھرو۔۔۔۔
جھٹکے سے اسے چھوڑ کر وہ اٹھ گیا یہ مت سمجھنا جو سب تم پاکستان میں کرتی آئ ہو مجھے نہیں پتہ لیکن اب میں تمھیں وہ سب نہیں کرنے دوں گا ۔۔
سمجھیں اک حقارت بھری نگاہ اس پر ڈال کر وہ وہاں سے چلا گیا
سنبل وہیں بیٹھی رونے لگ گئ اسے آج خود پر پچھتاوا ہورہا تھا لیکن اب اس پچھتاوے کا کوئ فائدہ نہیں تھا ۔۔۔۔
اگلے دن عباد کو کسی سے ہنستے ہوئے بات کرتے دیکھ اس کا ماتھا ٹھنکا ۔۔۔۔
کون تھا سنبل نے عباد کے قریب آتے پوچھا ۔۔۔۔
کوئ نہیں تمھارے کام کی بات نہیں اچھا بتاؤ آج کا کیا پروگرام ہے ۔۔۔۔
سنبل طنزیہ ہنسی میرا کیا پروگرام میں تو سارا دن یہیں پڑی رہتی ہوں۔۔۔۔۔
جب کوئ بات سیدھے طریقے پوچھی جاۓ تو سیدھا جواب دیا کرو سوچ رہا تھا آج ڈنر ساتھ کریں گے لیکن اب یہیں
پڑی رہو ۔۔۔۔
لیکن عباد رکو تو وہ روکتی رہ گئ لیکن عباد غصے سے وہاں سے چلا گیا ۔۔۔
رات کو عباد جب گھر آیا تو کافی ڈرنک تھا آتے ہی سیدھا اپنے کمرے میں جاکر سو گیا ۔۔۔۔
کسی خیال کے تحت سنبل نے اس کا موبائل اٹھایا اور چیک کرنے لگی لیکن اس میں اسے ایسا کچھ نہ ملا
پھر اس نے اس کا لیپ ٹاپ اٹھایا اور اسے کھول کر بیٹھ گئ رات بھر اس نے اس کے لیپ ٹاپ کو پورا کھنگال لیا اور اسے جو پتا چلا تھا وہ اس کے لۓ نا قابل برداشت تھا
وہ اک ڈرگ ڈیلر تھا اس کے علاوہ وہ ایشیائی ممالک سے لڑکیاں سپلائ کرتا تھا سنبل پر تو بجلی گری تھی ۔۔۔۔۔
ان گنت لڑکیوں کی تصویریں ڈرگ سیلرز کی انفارمیشن کیا نہیں تھا جو اس کے لیپ ٹاپ میں موجود تھا ۔۔۔۔
سنبل محو سی لیپ ٹاپ میں کھوئ تھی کہ گردن میں کچھ چبا اور وہ بےہوش ہوگئ
آنکھ کھلی تو وہ زنجیروں سے جکڑی تھی اور عباد اس کے سامنے کرسی پر بیٹھا تھا
کونے پر ہی لیپ ٹاپ کرچی کرچی ہوۓ پڑا تھا ۔۔۔۔
چچ چچ چچ سنبل بیگم یہ کیا کردیا تم نے اپنے ساتھ ۔۔۔۔ عباد آنکھوں میں حیوانیت لۓ بولا
سنبل تو سمٹ گئ اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا ۔۔۔۔
اچھی خاصی عزت سے رہ رہیں تھیں رہتی رہتیں لیکن نہیں تمہیں تو حقیقت جاننی تھی جان لی ۔۔۔۔۔
اب دیکھو میرا تو کوئ نقصان نہیں ہوا لیکن تم مشکل میں پڑ گئیں
افسوس
مجھے کھول دو عباد میں وعدہ کرتی ہوں کسی سے کبھی نہیں کہوں گی کچھ تم تو کہتے تھے مجھ سے محبت کرتے ہو ۔۔۔۔۔ سنبل اس کی منت کرنے لگی
ہاہاہاہاہاہاہاہا عباد نے زوردار قہقہہ لگایا
ارے میری جان تم سے محبت کرتا ہوں تبھی تو تم زندہ ہو ورنہ تمھیں کیا لگتا ہے تم یہان زندہ ہوتیں
ہاہاہاہاہاہاہاہا عباد جارہانہ طور پر ہنس رہا تھا
عباد ایسے نہ کرو مجھے ڈر لگ رہا ہے
ڈرنا بھی چاہیے تمھیں
میں تمھیں اس سب سے دور رکھنا چاہتا تھا لیکن یہ تمھاری ہی خواہش تھی میری جاسوسی کرنا اب بھگتو سزا ۔۔۔۔۔ یہ کہتا ہوا وہ وہاں سے اٹھ کر چلا گیا۔۔۔۔
عباد عباد عباد سنبل پیچھے سے چلاتی رہی لیکن بے سود
تین سال میں وہاں قید رہی پھر اک دن عباد نے مجھے بابا کے انتقال کی خبر دی میں نے اس کی بہت منت کی لیکن وہ نہ مانا میں اک بار بابا کو دیکھنا چاہتی تھی لیکن اس ظالم نے مجھے اک دفعہ بھی بابا کو نا دیکھنے دیا ۔۔۔۔
بابا کے غم نے مجھے ادھمرا کردیا تھا اک دن اسے مجھ پر کچھ رحم آگیا اور وہ مجھے ہاسپٹل لے گیا مجھے بہت تیز بخار تھا ۔۔۔۔
ڈاکٹر نے مجھے ایڈمٹ کرلیا
عباد کچھ دن تو مجھ پر خود نظر رکھے رہا لیکن اک دن کسی ضروری کام سے جیسے ہی وہ گیا میں وہاں سے بھاگ گئ ۔۔۔۔
سنبل ہچکیوں سے رو رہی تھی اور عیان ابھی بھی سرد تاثر لۓ اسے دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔
میں نے بہت مشکل وقت گزارا ہے عیان تین سال اس انسان نے مجھے قید رکھا تین سال میں بہت تڑپی ہوں
ہمممم جاؤ جاکر فریش ہوجاؤ اور کچھ دیر سوجاؤ ۔۔۔
وہ جو سمجھ رہی تھی عیان اسے دلاسہ دے
عیان کے ایسا کہنے پر عیان کو دیکھتی رہ گئ

جاری ہے

شیخ زادی

Facebook
Twitter
WhatsApp

ادب سے متعلق نئے مضامین