loader image

MOJ E SUKHAN

19/04/2025 16:41

روزنِ تقدیر قسط 22

قسط_نمبر_22

#از_قلم_شیخزادی

#روزن_تقدیر

#episode_22

#rozan_e_taqdeer

اگلی صبح موسم بالکل صاف ہوچکا تھا ہواؤں میں ٹھنڈک سی تھی ۔۔۔راستے درخت عمارتیں دھلی دھلی نکھری نکھری سی تھیں ہر چیز اپنی پوری خوبصورتی کے ساتھ موسم کو خوشگواری بنا رہی تھی
ماہشان فجر کی نماز پڑھنے کے بعد وہیں مصلح پر ہی بیٹھ گئ تھی آج اس کی آنکھوں میں غم نہیں تھا خوف نہیں تھا آج اس نے اپنے رب سے امید لگائ تھی
آج اس کی آنکھوں میں خوشی تھی اطمینان تھا سکون تھا وہ اپنے رب کی شکر گزار تھی کہ اس کے رب نے اسے ایسے نوازا ۔۔۔۔اے میرے رب آپ مجھے جانتے ہیں مجھ سے بھی زیادہ ۔۔۔آپ ہی جانتے ہے ہر اس بات کو جو میرے دل میں ہے اور جو میں ظاہر کرتی ہوں ۔۔۔آپنے مجھے اندھیروں سے نکالا آپ چاہتے تو مجھے اسی میں رہنے دیتے لیکن آپ نے میرے دل کو اپنی راہ دکھائی میری ہر لمحے ہر موڑ پر مدد کی مجھے یہاں لاۓ ۔۔۔۔۔ یہاں کے لوگوں کے دل میں میرے لۓ عزت پیدا کی اگر آپ نہ چاہتے تو یہ نا ممکن تھا
اے میرے پیارے اللّٰہ بس اک اور بات اک اور التجا میرے ابو اور بھیا کے دل میں بھی میری محبت ڈال دیجئے مجھے انکی بہت یاد آتی ہے آپ دلوں کے حال کو اچھے سے جانتے ہیں ان کے دلوں کو میرے لۓ نرم کردیجۓ۔۔۔وہ خوش تھی لیکن اس کے دل میں درد تھا اپنوں کے کھو جانے کا دکھ ماضی کی غلطیوں کی شرمندگی لیکن وہ پھر بھی اپنے
رب کی شکر گزار تھی کیونکہ جو رب یہ سب کرسکتا ہے وہ اس کے ہر غم کو بھی دور کردے گا اسے یقین تھا
وہ وہیں مصلح پر بیٹھی دعا کے لۓ ہاتھ پھیلاۓ اپنے سوچوں میں مگن تھی ۔۔۔
آمیں کہ کر اس نے قرآن شریف کھولا اور تلاوت کرنے لگی ۔۔
قرآن پاک کی تلاوت کرتے اس کی آنکھیں بار بار بھیگ رہی تھیں اسے اپنے اندر ڈھیروں سکون اترتا محسوس ہورہا تھا۔۔۔۔
ادھر عیان بھی اسی کیفیت میں اپنی امی کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا اس کی آنکھیں بھی پر امید تھیں اللّٰہ نے اسے بہت نوازا تھا وہ اپنے رب کا شکر گزار تھا۔۔۔
فاطمہ بیگم نے تلاوتِ قرآنِ پاک کر کے قرآن شریف آنکھوں سے لگایا اور ٹیبل پر رکھ دیا ۔۔۔
عیان بیٹا ۔۔۔۔۔۔۔فاطمہ بیگم نے عیان کا سر اپنی گود میں رکھ کر سہلاتے ہوۓ بولا
جی امی۔۔۔
بیٹا ماہشان کہ رہی تھی کہ اس کے ابو بھائ ہیں پاکستان میں لیکن انہوں نے اس سے سارے رشتے ختم کردۓ ہیں
ایسا نہ ہو کہ ان سے بات کر لی جاۓ۔۔۔۔فاطمہ بیگم ماہشان کے لۓ بہت فکرمند تھیں
امی میں کچھ کرتا ہوں لیکن آپ اس بارے میں ان سے کوئ زکر نہیں کریے گا
خوامخواہ وہ پریشان ہوں گی
ہاں بیٹا ۔۔۔۔۔صحیح کہ رہے ہو تم
ویسے اس جمعے کو رکھ لیں نکاح کیا خیال ہے تمھارا فاطمہ بیگم مسکراتے ہوۓ گویا ہوئیں
جیسا آپ مناسب سمجھیں امی لیکن ایک بار ماہشان سے بھی بات کر لیجیے گا۔۔۔۔
ہاں بیٹا ظاہر ہے ہر لڑکی کے شادی کو لیکر بہت سے ارمان ہوتے ہیں اس کے بھی ہو نگے ہم ہر چیز کا خیال رکھیں گے بیشک شادی سادگی سے ہوگی لیکن سادگی میں بھی بھرپور ہوگی آخر میرے بھی تو تم اکلوتے بیٹے ہو تمھاری شادی کو لیکر میں نے بھی بہت خواب دیکھے ہیں ۔۔۔فاطمہ بیگم خوشی خوشی بیٹے سے باتیں کرنے لگیں
صاف ظاہر تھا جتنی وہ اوپر سے خوش دکھائی دے رہی ہیں دل میں اس سے کہیں زیادہ خوش ہیں۔۔۔
ماہشان اپنے کمرے سے نکلی اور باہر لان میں جانے لگی
ہلکے گلابی رنگ کی کرتی پر اس نے سفید چوڑی دار پاجامہ پہنا تھا ہلکا گلابی دوپٹہ سلیقے سے اس نے اپنے سر پر اوڑھا ہوا تھا بڑی بڑی آنکھیں کاجل سے بھری ہوئ مزید دلکش لگ رہیں تھیں پر نور چہرہ ہونٹوں پر مسکراہٹ تو اسے اور بھی حسین بنا رہی تھی تبھی اک دم فاطمہ بیگم کے کمرے سے عیان نکلا
سفید کرتا پاجامہ میں وہ بھی بہت ہی ہینڈ سم لگ رہا تھا عیان کو اس طرح اچانک دیکھ کر ماہشان کا دل زور سے دھڑکا تھا اسے لگا کہ دل اچھل کر حلق میں آگیا ہو ادھر عیان بھی اسے دیکھ کر ساکن ہوگیا تھا ہلکی سی مسکراہٹ چہرے پر لاکر ماہشان کو سلام کرتے وہ نظریں جھکا کر سیدھا اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا ماہشان بھی خد کو سنبھال کر لان کی طرف چلی گئ

فاطمہ بیگم صبح سے ہی شادی کی تیاریوں میں لگ گئیں تھیں دن ہی اتنے کم تھے اپنے اکلوتے بیٹے کی شادی میں وہ کوئ کمی نہیں رہنے دینا چاہتی تھیں ۔۔۔۔
ماہشان کو بھی انہوں نے بتا دیا تھا وہ بہت خوش تھی آخر اس کی زندگی کا اتنا بڑا دن تھا ہمیشہ سے اس نے یہی خواب تو دیکھا تھا کوئ چاہے کوئ پیار کرے عزت دے اور اس گھر میں اسے یہ سب وافر مقدار میں ملا تھا ۔۔۔۔
فاطمہ بیگم نے پہلے سے عیان کی دلہن کے لۓ بہت سی چیزیں لے کر رکھی ہوئ تھیں وہ ہر چیز نکال کر دیکھ رہیں تھیں ۔۔۔
مشرقی مائوں کی طرح انہوں نے بھی عیان کی پیدائش سے ہی اس کی شادی کے خواب سجاۓ تھے
اور اب وہ خوشی انہیں بالآخر مل ہی گئ تھی
ارے واہ چاچی یہ کیا کھول کر بیٹھ گئ ہیں بڑی پیاری چیزی ہیں سنبل کمرے میں آتے ہی ساری چیزوں کو ستائش سے دیکھنے لگی
ہاں سنبل اچھا ہوا تم آگئیں بیٹا تیار ہوجاؤ تمھیں چلنا ہے میرے ساتھ کچھ لینا ہو تو لے لینا
عیان کی شادی ہے اس جمعے کو سادگی سے نکاح ہوگا اور پھر ولیمہ فاطمہ بیگم خوشی خوشی سنبل کو بتانے لگیں
عیان کی شادی سنبل کو اپنے چہرے پر اک دم حرارت محسوس ہوئی اسے لگا جیسے کوئ گرم لہر سی گزر کر گئ ہو۔۔۔
ہاں بیٹا چلو میرے ساتھ کچھ شاپنگ کرلو ماہشان کو بھی میں نے کہا تھا لیکن اس نے منع کردیا کہنے لگی جو آپکو پسند آۓ لے آئیے گا میں جا کر کیا کروں گی کتنی سادہ ہے نہ لیکن میں نے بھی سوچ لیا ہے عیان سے کہوں گی اسے اپنے ساتھ لے جاۓ کم سے کم نکاح کا جوڑا تو دونوں اپنی پسند سے لے لیں ۔۔۔۔فاطمہ بیگم جلدی جلدی سامان سمیٹتی اپنی دھن میں بول رہیں تھیں
ماہشان کیوں ۔۔۔۔۔۔ سنبل اکدم حیرت سے بولی
ارے ہاں یہ تو میں نے تمھیں بتایا ہی نہیں کہ ماہشان اور عیان کی شادی ہو رہی ہے ۔۔فاطمہ بیگم اک دم ہاتھ روک کر اسے بتانے لگیں
سنبل پر تو جیسے بجلی گر گئ ہو بیشک وہ اپنی زندگی میں آگے بڑھ گئ تھی لیکن جب سے وہ واپس آئ تھی عیان کو اکیلا دیکھ کر اسے کہیں نہ کہیں یہ لگا تھا کہ عیان شاید اسی سے محبت کرتا ہے تبھی اس نے آج تک کسی اور لڑکی کا نہیں سوچا۔۔۔۔۔
ماہشان سے وہ دل کے کسی کونے میں حسد کرنے لگی تھی پتا نہیں کیوں اسے ماہشان اس وقت سخت بری لگ رہی تھی شاید یہ اس کی خود پسندی تھی جسے شدید جھٹکا لگا تھا ۔۔۔
اتنے میں کمرے کا دروازہ کھلا اور ماہشان کمرے میں آگئ آنٹی آپنے بلایا۔۔۔۔
معصوم سی چہرے پر ڈھیروں سادگی لۓ وہ فاطمہ بیگم کے پاس بیٹھ گئ ۔۔
بیٹا میں جا رہی ہوں سنبل کے ساتھ شاپنگ کرنے تم بھی چلو ۔۔۔۔شادی ہے تمھاری لڑکیاں تو شاپنگ سینٹرز سے نکلتی ہی نہیں ہیں اور اک تم ہو وہ مسکراتے ہوۓ بولیں

نہیں آنٹی مجھے گھبراہٹ ہوتی ہے شاپنگ مال وغیرہ میں ابھی ماہشان بات کر ہی رہی تھی کہ سنبل بیچ میں بولی
چاچی لگتا ہے عیان کے ساتھ پلان بنایا ہوا ہے ۔۔۔۔
نہیں نہیں بالکل نہیں ماہشان اک دم گھبرا کر بولی گول گول بڑی آنکھیں اور بڑی اور پیاری لگنے لگیں
عیان جو اللّٰہ حافظ کہنے آیا تھا سنبل کی بات سن کر وہیں دروازے پر رک گیا
تو اس میں کوئ معیوب بات تو نہیں ہے اگر وہ عیان کے ساتھ چلی بھی جاۓ تو فاطمہ بیگم نے سنبل کو سنجیدگی سے دیکھتے ہوۓ بولا
آنٹی معیوب تو پتا نہیں پر گناہ ہے کچھ ہی دن میں جب یہ رشتہ حلال ہوگا وہ میرے محرم ہوں گے تب اللّٰہ کی رضا شامل ہوگی میں تب چلی جاؤگی لیکن ایسے کسی نا محرم کے ساتھ بنا کسی ضرورت کے میں اپنے اللّٰہ کو کیا جواب دوں گی ۔۔۔۔۔ آنٹی پلیز برا مت مانۓ گا میں آپکی اور عیان صاحب کی بہت عزت کرتی ہوں دل سے لیکن یہ ٹھیک نہیں ۔۔۔۔۔
آپ جو بھی میرے لۓ لائیں گی مجھے یقین ہے وہ بہترین ہوگا ۔۔۔۔۔۔ماہشان نے بڑی معصومیت سے آنکھون میں بے تحاشہ ادب لۓ فاطمہ بیگم سے بولا
عیان کو اپنی پسند پر آج فخر محسوس ہوا وہ بنا کچھ کہے وہاں سے چلا گیا ایسی ہی لڑکی تو وہ چاہتا تھا
جو اس کے لۓ بہترین تھا اسے وہ دلانے کے لۓ ہی اللّٰہ نے اسے اتنے عرصے روک کر رکھا آج وہ اللّٰہ کی حکمت کو جان کر اس کا بہت شکر گزار تھا نہ ماضی وہ سب ہوتا نہ اس کا دل سنبل سے اچاٹ ہوتا نہ وہ اتنے عرصے خود کو روکتا ۔۔۔۔۔۔یا اللّٰہ ہمیں لگتا ہے کہ ہمارے ساتھ جو ہوا وہ غلط تھا لیکن ہم نہیں جانتے کہ جو ہوا وہ اچھے کے لۓ ہوا ہے تو ہمیں بہتر دینا چاہتا ہے اور ہم ناشکری کا بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہیں الحمدللہ رب العالمین
وہ دل ہی دل میں اپنے رب سے مخاطب تھا ۔۔۔۔
فاطمہ بیگم نے بڑے پیار سے ماہشان کا ماتھا چوما اور اسے دعائیں دینے لگیں دیکھنا اپنی بیٹی کے لۓ میں کیسی شاپنگ کرتی ہوں ۔۔۔۔۔
چاچی میں تیار ہوجاتی ہوں پھر چلتے ہیں سنبل سے یہ سب برداشت نہ ہوا تو وہ اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئ۔۔۔۔
تمھیں میں نے کہیں دیکھا ہے ماہشان اک دفع یاد آجاۓ بس پھر سب کو پتا چلے گا تم کتنی نیک ہو۔۔۔۔سنبل اپنے کمرے میں بیٹھتے ہوۓ بولی
میں بھی چلتی ہوں آنٹی کوئ کام ہو تو بتائیے گا یہ کہ کر ماہشان اپنے کمرے میں چلی گئ۔۔۔۔۔۔

جاری ہے

شیخ زادی

Facebook
Twitter
WhatsApp

ادب سے متعلق نئے مضامین