23/02/2025 18:09

روزنِ تقدیر قسط 32

#از_قلم_شیخزادی

#روزن_تقدیر

ماہشان نے ردا بیگم کی مرضی کے مطابق گورنمنٹ کالج میں ایڈمیشن تو لے لیا تھا لیکن ردا بیگم کی عزت اب ماہشان کی نظروں میں ختم ہوگئی تھی وہ اب آمنہ کے گھر بھی رہنا نہیں چاہتی تھی اسے بس اب اپنا انتظام کرنا تھا ۔۔۔۔
صبح کا وقت تھا ماہشان اور آمنہ دونوں کالج کے لۓ تیار ہورہی تھیں دونوں کو ساتھ ہی نکلنا تھا ۔۔۔ جلدی جلدی تیار ہوتی دونوں نیچے آئیں اور ناشتہ کرنے لگیں ۔۔۔۔ ناشتہ کرتے دونوں اک دوسرے سے باتیں کرنے میں اتنی مگن تھیں کہ ردا بیگم کا غصہ دیکھ ہی نہ سکیں۔۔۔۔
لڑکیوں۔۔۔۔۔ردا بیگم غصے سے بولیں اک منٹ بھی چپ نہیں رہتیں تم دونوں ۔۔۔۔ خاموشی سے ناشتہ کرو ۔۔۔ ردا بیگم کوئ بری عورت نہیں تھیں شروع شروع میں تو وہ ماہشان کو آمنہ کے جیسا ہی سمجھتی تھیں اس کا پورا خیال رکھتیں۔۔۔۔ لیکن اب آمنہ بڑی ہورہی تھی اک ایسی لڑکی کے ساتھ دوستی جو گھر سے بھاگی ہو ان کی نظر میں آمنہ کی امیج کے لۓ ٹھیک نہیں تھی ۔۔۔ ان دونوں کی دوستی سے انہیں اب کوفت ہونے لگی تھی ان دونوں کی دوستی ختم کرنے کا اب انہوں نے دل میں تہیہ کرلیا تھا کیونکہ یہی راستہ تھا ماہشان کو یہاں سے بھیجنے کا ۔۔۔
وہ اکثر و بیشتر آمنہ سے ماہشان کی بدسلوکیوں کی شکایت کرنے لگیں جو کہ زیادہ تر جھوٹ پر مبنی ہوتیں۔۔۔ بعض اوقات آمنہ کے سامنے وہ ماہشان کو بد تمیزی کرنے پر مجبور کردیتیں اور پھر بعد میں آمنہ کے سامنے رونے لگ جاتیں ۔۔
دن بیتتے گۓ ماہشان پہلے تو آمنہ کے ساتھ ہی کالج آتی جاتی تھی پھر اس نے ردا بیگم کے طعنوں کے باعث خود ہی آنا جانا شروع کردیا
اس ہی دوران اسے کالج میں فریال ملی ۔۔۔۔ فریال امیر گھرانے کی بگڑی لڑکی تھی لڑکوں سے دوستیاں کرنا پارٹی کرنا اس کے لۓ عام بات تھی ۔۔۔۔
ماہشان کے ساتھ فریال بہت پیار سے رہتی وہ اس کا بہت خیال بھی رکھتی
آمنہ ماہشان کی بہت اچھی دوست تھی لیکن اپنی امی کے بارے میں کچھ نہیں جانتی تھی کہ وہ ماہشان کے ساتھ کیسا رویہ اختیار کۓ ہوۓ ہیں آمنہ کو تو یہی لگتا تھا کہ اس کی امی ان دونوں میں کوئ فرق نہیں کرتی ہیں اور ماہشان بھی اسے کچھ بتا کر افسردہ نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔ماہشان کو یہ بھی ڈر تھا کہ اگر آمنہ نے اس کی بات کا یقین ہی نہیں کیا تو۔۔۔۔آمنہ کے اس پر احسان تھے وہ اس کی دل آزاری کسی طور بھی نہیں کرنا چاہتی تھی
فریال سے وہ اپنے دل کی ہر بات ہر غم شئیر کرتی اسے اپنا دل ہلکا کر کے وقتی سکون مل جاتا ۔۔۔ فریال دل کی بہت اچھی تھی بس اس کی عادتیں خراب تھیں وہ چین اسموکر تھی اور ماہشان سے باتیں کرتے کرتے وہ اکثر ماہشان کو بھی سسگریٹ تھما دیتی
شروع شروع میں تو ماہشان کو عجیب لگا لیکن چونکہ برائ اپنے پیر جلدی گاڑھ لیتی ہے ماہشان نے بھی باقاعدگی سے اسموکنگ شروع کردی ۔۔۔
اب تو عالم یہ تھا کہ وہ گھر میں بھی چھپ چھپا کر اسموکنگ کرتی
اک دو بار عباد نے اسے ایسا کرتے دیکھا تو ۔۔۔۔وقت دو خود کو ابھی تمھیں بہت کچھ کرنا ہے کہ کر اس کے ہاتھ سے سگریٹ لیکر پھینک دی
فریال کے اک دوست کے زریعے ماہشان کی ملاقات شاہد سے ہوئ ۔۔۔
ماہشان کو دیکھتے ہی شاہد کو وہ پسند آگئ اور اس نے فریال کے توسط سے اسے پروپوزل بھجوایا۔۔۔۔
شاہد اک اوباش لڑکا تھا شروع شروع میں تو اس نے شاہد کو کوئ اہمیت نہ دی لیکن اس کے بار بار اسرار کرنے پر وہ اس سے صرف دوستی کے لۓ مان گئ
شاہد اکثر و بیشتر اسے کالج جاتے ہوۓ ملتا ۔۔۔ شاہد کا کالج ماہشان کے کالج سے قریب ہی تھا
اکثر وہ فریال کے ساتھ ان کے گروپس میں ادھر سے ادھر گھومتی پھرتی ۔۔۔۔
ماہشان نے ساری زندگی محرومیوں میں گزاری تھی شاہد کی زرا سی اہمیت اس کا دل پگھلانے میں کافی رہی۔۔۔ انسان کو کیا چاہیے ہوتا ہے بس محبت زرا سے اہمیت ۔۔۔ اسی لۓ تو اللّٰہ نے پہلا جوڑا میاں بیوی کا بنایا لیکن اگر انسان وہ محبت اہمیت اللّٰہ کی مرضی کے خلاف حاصل
کرنا چاہے گا تو پھر اس رشتے سے سکون غائب ہونا لازم ہے ۔۔۔۔ گناہ بے لذت میں انسان کھنچتا چلا جاتا ہے اور اسے علم بھی نہیں ہوپاتا۔۔۔۔اور جب علم ہوتا ہے تو بہت دیر ہوجاتی ہے نتیجتاً کم عمری میں دل کا روگ اصل میں یہ دل کا روگ اور کچھ نہیں گناہ بے لذت کا خمیازہ ہوتا ہے ۔۔۔۔اپنی زندگی کا سکون آپ خود برباد کر دیتے ہو اور ماہشان اب اس بے سکون راستے پر چل پڑی تھی
وہ اس سے چھپ چھپ کر ملنے لگی اس کی خبر اس نے آمنہ تک کو نہ دی ۔۔۔۔شاہد نے بھی اسے آنے والے کل کے سنہرے خواب دکھاۓ
اک دن وہ کالج کا بہانہ کر کے شاہد سے ملنے چلی گئ ۔۔۔ وہ دونوں اکثر و بیشتر ملتے رہتے تھے
اب تو یہ عالم تھا کہ وہ پبلک پلیسز میں کھلے عام ملنے لگے کیونکہ ماہشان کے دل سے اب ہر طرح کا خوف ختم ہوگیا تھا
سمپل بلیک کرتی میں بال سیدھے کھولے بڑی بڑی آنکھیں کاجل سے بھری ہوئ۔۔۔ بغیر دوپٹے کے پر اعتماد شاہد کے ساتھ اک کافی شاپ میں بیٹھی باتیں کر رہی تھی کہ عباد وہاں کسی کام سے پہنچ گیا عباد کو وہاں کسی سے میٹنگ کرنی تھی
ماہشان کو یوں دیکھ کر عباد کو پہلے تو حیرت ہوئ پھر وہ ماہشان سے نظریں ہٹاتا سیدھا اپنے مطلوبہ شخص کے پاس جاکر بیٹھ گیا ۔۔۔
بار بار اس کی نظریں ماہشان پر پڑھ رہی تھیں ۔۔۔
اپنی میٹنگ ختم کرکے وہ باہر اپنی گاڑی کے پاس کھڑا ہوگیا ۔۔۔ ماہشان بھی اسے دیکھ کر گھبرا گئ تھی وہ جانتی تھی عباد باہر ہی ہوگا اسی لۓ وہاں سے جلدی چلی آئی
عباد بھائ وہ ۔۔۔۔۔ ماہشان گھبراتے گھبراتے بولی
کوئ بات نہیں صفائ نہیں دو چلو اندر بیٹھو۔۔۔۔۔عباد بڑے اپنے پن کا مظاہرہ کرتے گاڑی کا دروازہ کھول کر اسے اندر بیٹھنے کا بولنے لگا
ماہشان ڈرتے ڈرتے اندر بیٹھ گئ اسے ڈر تھا اب ردا آنٹی کو سب پتا چل جاۓ گا اور پھر وہ اسے اک سیکنڈ وہاں نہیں رکنے دیں گی
آمنہ کو پتا ہے اس بارے میں ۔۔۔عباد ڈرائیو کرتے کرتے پوچھنے لگا ۔۔۔
نہیں ۔۔۔ ماہشان نے نیچے دیکھتے دیکھتے جواب دیا
گڈ اب دوبارہ ایسے لڑکوں سے نہیں ملنا پہلے کچھ بن ناؤ اسٹرانگ ہوجاؤ پھر چاہے جو کرنا میں تمھارا ساتھ دوں گا ۔۔۔ مجھے تم اپنا بھائ ہی سمجھو
ماہشان کی آنکھوں میں آنسوں آگئے اس کے سگے بھائ نے زرا سی بات پر اسے اتنی بری طرح مارا تھا اور یہ اس کی دوست کا بھائ اس کی غلطی پر بھی اس سے اتنی پیار سے بات کر رہا ہے ۔۔۔ ماہشان کی محرومیوں نے اک بار پھر اسے غلط انسان پر بھروسہ کرنے پر آمادہ کردیا
عباد کے کہنے پر وہ شاہد سے دور تو ہوگئ پر اس سے ملنے اور بات کرنے کی عادت اسے افسردہ کۓ ہوۓ تھی اوپر سے شاہد نے بھی اسے تنگ کیا ہوا تھا وہ ہر طرح سے اس تک کوئ نہ کوئ پیغام پہنچا دیتا ۔۔۔ ماہشان کے لۓ اس سے دور ہونا مشکل ترین ہوگیا تھا
اک دن ماہشان نے شاہد سے ملنے کا فیصلہ کیا وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ شاہد کی بیٹھک کہاں ہوتی ہے وہ سیدھی وہاں پہنچی ۔۔۔ماہشان نے سوچا تھا شاہد سے تھوڑا وقت مانگ لے گی پھر بعد میں اس رشتے کو آگے بڑھاۓ گی۔۔۔
لیکن وہاں پہنچ کر تو اس کے پیروں تلے زمین ہی نکل گئ شاہد کسی اور لڑکی کے ساتھ بہت کی پیار محبت سے باتیں کر رہا تھا اس لڑکی کا ہاتھ شاہد کے ہاتھ میں تھا اور وہ دونوں بہت قریب کھڑے ہنستے ہوۓ باتیں کر رہے تھے ۔۔۔۔
ماہشان سے یہ سب برداشت نہیں ہوا اور وہ وہاں سے گھر آگئ۔۔۔
شاہد کو اس بات کی بھنک تک نہ پڑی کہ ماہشان اسے رنگے ہاتھوں پکڑ چکی ہے ۔۔۔اسی لۓ وہ بار بار ماہشان کو افسردہ میسجز کرتا ایسے ظاہر کرتا جیسے ماہشان نے اس کا دل توڑ دیا ہے ۔۔
جبکہ ماہشان کو اس کے دوغلے پن سے اب چڑ ہورہی تھی۔۔۔وہ اس کی اصلیت جان چکی تھی لیکن بس دل کی تسکین کے لۓ ریجیکشن کا تھپڑ اسے مارنا چاہتی تھی تاکہ ظاہر ایسا ہو کہ ماہشان نے اسے چھوڑا ہے نہ کہ اس نے ۔۔۔۔
شاہد کے بار بار تنگ کرنے سے اب وہ اکتا گئ تھی اسی لۓ اس نے شاہدکے بارے میں عباد کو بتا دیا ۔۔۔بھائ میری جان چھڑوادیں اس لڑکے سے وہ عباد سے بڑے مان سے بولی

اب وہ کچھ نہیں کرےگا عباد نے ماہشان کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوۓ کہا۔۔۔
عباد کے دھمکانے کے بعد شاہد نے اس سے پھر کبھی بات نہیں کی لیکن اسے شاہد کے ساتھ گھومنے پھرنے باتیں کرنے کی عادت ہوگئ تھی بلکہ یہ کہ سکتے ہیں خراب عادت ہوگئ تھی ۔۔۔
خراب عادتیں اور خراب دوستیاں تو انسان کو برباد کر ہی دیتی ہیں ۔۔۔
ماہشان کے ساتھ بھی یہی ہوا
شاہد کی عادت دور کرنے کے لۓ اس نے اور دوسرے غلط کام اپنا لۓ چھپ چھپ کر سگریٹ پینا تو اب عام بات تھی ۔۔۔ بائیک چلانا بائیک ریسنگ کرنا الٹی سیدھی جگہوں پر کالج بنک کر کے چلے جانا ۔۔۔۔ بیہودہ لباس پہننا ۔۔۔ گھٹیا انداز میں بات کرنا جھگڑے کرنا یہ سب اب معمول کا حصہ تھا
لیکن اس سب کی خبر عباد کو بھی تھی ماہشان ہر بات عباد کو بتا کر کرتی اور عباد اس کو کبھی نہ روکتا بلکہ ہمیشہ اسے یہی نصیحت کرتا کہ اگر تمھیں دنیا پر اپنے بل پر راج کرنا ہے تو تمھیں ہر گند سے ہوکر گزرنا ہوگا تمھیں اپنی ہر خامی کو اپنی طاقت میں بدلنا ہوگا تمھیں مظبوط ہونا ہوگا لوگوں کی آنکھوں میں اس جلال سے دیکھنا سیکھنا ہوگا کہ کوئ تم میں برائ دیکھنے کے لۓ تمھاری طرف آنکھ اٹھا بھی نہ سکے
بس کچھ غلط نہ کرنا اگر کر بیٹھو تو مجھے ضرور بتانا
عباد کی باتوں سے ماہشان کو بہت ہمت ملتی اب ماہشان کو اک اور بری عادت نے آگھیرا تھا
اس نے ڈرگس لینا شروع کر دی تھیں عباد کو جب اس بات کا پتا چلا تو اس نے ماہشان پر بہت غصہ کیا کیونکہ وہ ماہشان کو حقیقتاً مضبوط دیکھنا چاہتا تھا
لیکن ڈرگز تو اسے اس کے انجام پر لے جاتے ۔۔۔
اک دن ماہشان کا عباد کے پاس فون آیا وہ شدید نشے میں تھی عباد سب کام چھوڑتا اس کے پاس چلا گیا
جب عباد مطلوبہ جگہ پہنچا تو اس نے ماہشان کو وہاں بیہوش پایا
آج اس نے فیصلہ کرلیا کہ اب وہ ماہشان کو خد ٹریننگ دے گا وہ اسے سیدھا گھر لے گیا کیونکہ وہ جانتا تھا اسی طرح ماہشان اس کے مکمل کنٹرول میں آۓ گی

اور وہی ہوا جیسا اس نے سوچا تھا ردا بیگم نے اک سیکنڈ بھی ماہشان کو گھر میں ٹہرنے نہیں دیا اسے اسی وقت گھر سے نکال دیا
عباد ماہشان کو لیکر وہاں سے سیدھا نشہ چھڑانے کے ادارے لے گیا اور فوراً اسے ایڈمٹ کروادیا ۔۔۔۔
عباد کا جاننے والا اس ادارے کا مالک تھا تو اس سے کہ کر اس نے ماہشان پر خاص توجہ دلوائی
کچھ ہی مہینوں میں ماہشان کی عادت چھوٹ گئ اور وہ وہاں سے باہر آگئ ۔۔۔۔ باہر آتے ہی عباد اسے منصور کے پاس لے گیا۔۔۔
عباد کا کام لڑکیوں کو اغواء کرکے دوسرے ممالک بھیجنا تھا ۔۔۔ لیکن جب ان کے پاس بچے بچیاں اغواء ہوکر آتے تو منصور یہاں پر ان کی جانچ کرتا کوئ بھی بچہ یا بچی کسی ہنر سے واقف ہوتے تو یہاں پر انہیں ٹریننگ دی جاتی تاکہ وہ عباد کے کام کو بڑھا سکیں
عباد ماہشان کی صلاحیتوں سے واقف تھا اسی لۓ اس نے صحیح وقت آنے کا انتظار کیا تاکہ وہ اسے اپنے کام میں شامل کر سکے


جاری ہے۔۔۔۔🌹

Facebook
Twitter
WhatsApp

ادب سے متعلق نئے مضامین