سال بیتتے گئے جب جب وہ گھر آتا سب اسکا بہت خیال رکھتے سنبل اسے دل ہی دل میں پسند کرنے لگی تھی اور عالم یہ تھا کہ وہ بھی اب اس کے بارے میں جزبات رکھتا تھا۔۔۔
لیکن اس سب کے باوجود وہ کبھی کبھار اسکو عجیب الجھن میں ڈال دیتی تھی
سنبل زرا آزاد خیال لڑکی تھی اکلوتی ہونے کی وجہ سے آج تک اس کی کوئ بات نہ ٹالی گئ تھی وہ خود سر بھی بہت تھی کھڑی ناک گورا رنگ سبز آنکھیں لمبا قد بلا شبہ وہ اک خوبصورت لڑکی تھی اسی درمیان ہاجرہ بیگم بھی انتقال کر گئیں ۔۔۔۔
گھر میں سونا پن چھا گیا سنبل بھی بہت خاموش رہنے لگی فاطمہ بیگم کے بے ہد اسرار پر بھی وہ کمرے سے نہ نکلتی۔۔۔۔
عیان کو جیسے ہی یہ خبر ملی
وہ لیو لیکر گھر آیا عیان کے آنے سے سنبل کا کچھ دل بہلا۔۔۔ یہ دیکھ کر فاطمہ بیگم نے اس کو اپنی بہو بنانے
کا فیصلہ کیا تایا تو گویا جس انتظار میں تھے وہی ہوا وہ جھٹ مان گئے ۔۔۔۔
سادگی سے دونوں کی منگنی کردی گئ۔۔۔ وہ دونوں بہت خوش تھے عیان جب آتا اس کے لئے تحفے لاتا ۔۔۔ لیکن منگنی کے بعد سے عیان اس سے زرا فاصلہ رکھتا۔۔۔ جس پر سنبل نے اعتراض کیا ۔۔۔۔
امی پہلے کی بات اور تھی لیکن اب میری جلد اس سے شادی ہو جائیگی مجھے ٹھیک نہیں لگتا اس سے اس طرح ملنا ہم دونوں بالغ ہیں کیوں اپنے پاک رشتے سے سکون چھینیں۔۔۔۔ میری ٹریننگ بس ختم ہی ہونے والی ہے آپ شادی کی تیاری کریں
شادی کا نام سن کر جہاں وہ خوش ہوئ تھی وہیں عیان کے اس طرح کہنے پر تلملا اٹھی تھی وہ چاہتی تھی کہ وہ عیان کے ساتھ گھومے پھرے پیار محبت کی باتیں کرے عیان اسکے ناز نخرے اٹھاۓ جیسے اسکے فرینڈ سرکل میں سب کرتے تھے۔۔۔۔۔
اسنے اک ہنگامہ برپا کر دیا عیان کو بھی بہت غصہ آیا
بڑوں نے جیسے تیسے انکی صلاح تو کرادی لیکن سنبل کو یہ اپنی بے عزتی لگی ۔۔۔
سنبل کی باہر دوسرے لڑکوں سے دوستیاں تھیں وہ سب میں کافی مشہور تھی اسی عیان تنگ نظر لگتا تھا
پٹھان کہ کر وہ اس کی سوچ جھٹک دیا کرتی تھی ۔۔۔ اسے آے دن پروپوزل آتے رہتے تھے وہ تھی ہی ا تنی حسین۔۔۔۔
حال۔۔۔۔۔۔۔۔
ماہشان چھپتے چھپاتے اک ہوٹل گئ وہاں اک کمرے میں جاکر اسنے سکون کا سانس لیا ۔۔۔ کہ دروازے پر دستک ہوئ ۔۔
دروازہ کھلتے ہی کسی کا بھاری ہاتھ اسکے منہ پر آیا جس میں رومال تھا غالباً رومال پر بیہوشی کی دوا لگی تھی ۔۔۔ اس کو اپنا وجود کسی کھائ میں جاتا محسوس ہوا۔۔۔۔
جب آنکھ کھلی تو وہ اک کمرے میں میں بند تھی ہاتھ پاؤں کس کر باندھے ہوئے تھے ۔
اک آنسوں اسکی آنکھ سے نکل کر اسکے گال پر بہ گیا ۔۔
اسے شدت سے اپنے مازی پر پچھتاوا ہوا ۔۔
وہ آفس میں موجودتھا بار بار اسے کچھ کچھ دال میں کالا لگ رہا تھا ماہشان کا اسے اس حلیہ میں ملنا پھر رات میں ڈر کر چیخیں مارنا الجھائے ہوئے تھا ۔۔
اک دم فون بجنے لگا اسنے فوراً ہی فون اٹھایا اور کچھ سنتے ہی گاڑی کی چابی اور کوٹ اٹھا کے آفس سے نکل گیا۔۔۔۔
مطلوبہ جگہ پہنچ کر اسکے آنکھوں پر بل آگئے۔۔۔
ماہشان بہت دیر سے رو رہی تھی شاید وہ جہاں بند تھی وہاں کوئ نہیں تھا۔۔۔ اب وہ نڈھال سی جھکی بیٹھی تھی کہ قدموں کی آواز پر اس کا دل دھڑکنے لگا۔۔۔ وہ اللہ سے دعا کر رہی تھی کہ اسکو اس آزمائش سے نکال لے اس کے گناہوں کو معاف کردے اسے اس دلدل سے نجات دےدے ۔۔۔۔وہ آنکھیں پھیلاے دروازے کو دیکھ رہی تھی آنسوں روانگی سے اسکی آنکھوں سے بہ رہے تھی دل میں اک ہی دعا تھی۔۔ استغفار اللہ رب من کل ذنب واتوب علیہ
یا اللہ میرے گناہوں سے میرا پیچھا چھڑوادے۔۔۔۔۔
زور دار دھماکے سے دروازہ ٹوٹ کر گرا۔۔۔ اسنے اپنی آنکھیں بند کرلیں جب خاموشی ہوئی تو اسے اپنی رسی کھلتی ہوئی محسوس ہوئی ۔۔۔ آنکھ کھلی تو اسکے پاس عیان بیٹھا تھا جو اسکی رسی کھول کر اب اسے اٹھنے کا اشارہ کر رہا تھا۔۔۔۔
وہ حیرانی اور تشکر کے ملے جلے تاثرات لیے عیان کو دیکھ رہی تھی ۔جو اسکے لئے اس وقت کسی فرشتہ سے کم نہ تھا ۔۔۔
جلدی چلیں عیان نے اسے چلنے کا کہا
وہ بھی سر ہلا کر باہر کی طرف بھاگی۔۔۔
عیان کو اس پر شک تھا اسی لئے اسے چھوڑتے ہی اسنے اپنے اک پولیس افسر دوست کی مدد سے اسکی جانچ کروائی اور اس کی حفاظت کے لئے بھی کجھ لوگوں کو اس پر نظر رکھنے کو کہا ۔۔۔ جب اسے پتا چلا کہ وہ ہاسٹل نہیں گئ تو اسکا شک یقین میں بدل گیا ۔۔۔ اور اسنے مزید اسکے بارے میں انفارمیشن نکلوائیں۔۔۔
جہاں سے اسے پتا چلا کہ ماہشان کو دھوکے سے یہاں بلا کر کڈنیپ کیا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
راستے بھر عیان نے اس سے کوئ بات نہ کی
اس کے کانپتے وجود کو دیکھ کر اسے اس پر بہت ترس آرہا تھا ۔۔۔ عیان اس سے اس پر بات کرنا چاہتا تھا لیکن یہ صحیح وقت نہیں تھا
۔۔۔۔ گھر کے باہر گاڑی روک کر اس نے اس سے صرف اتنا کہا کہ امی کو کچھ نہ بتانا ۔۔۔۔ وہ سر ہلا کر اپنا ہیلہ ٹھیک کرنے لگی
امی امی
ہاں بیٹا آگئے ۔۔۔۔
ارے بچا آپ۔۔وہ جو بیٹے سے ملنے آرہی تھیں ماہشان کو دیکھ کر حیرت سے بولیں۔۔
امی وہ انکے ہاسٹل والوں نے انہیں نکال دیا تو میں نے کہا کیوں نہ آپ یہاں رہ لیں ۔۔۔۔
ماہشان آنکھوں پر ڈھیروں حیرت لئے عیان کو دیکھنے لگی۔۔۔ اسے یہ شخص سمجھ نہیں آرہا تھا مرد کا یہ روپ تو اسنے کبھی دیکھا ہی نہیں تھا۔۔۔
بچپن سے اسکے باپ بھائ اس پر بہت سختی کرتے تھے نہ کہیں جاتی نہ کوئ دوست بنا پاتی ۔۔۔ زرا کبھی اس کو باہر دیکھ لیتے تو اس پر ہاتھ اٹھانے سے بھی گریز نہ کرتے۔۔۔۔وہ ایک ٹک عیان کو دیکھ رہی تھی کے فاطمہ بیگم کی آواز سے چونکی
بیٹا آپ میرے ساتھ آئیں ۔۔۔ وہ اسے گیسٹ روم میں چھوڑ کر چلی گئیں
جاری ہے