عیان اپنے کمرے میں ٹہل رہا تھا شدید بے چینی تھی۔۔
دل دماغ میں اک جنگ سی چھڑی ہوئ تھی ۔۔۔
اسے خود پر قابو پانا ہی ہوگا خود کو پھر کسی کے استعمال کی چیز بننے سے روکنا ہی ہوگا ۔۔۔
لیکن دل بار بار اسے اس کا معصوم چہرہ دکھاتا ۔۔۔
اسے عورت تو بس خودغرض لگتی تھی لیکن یہ کیا تھا کہ وہ اس بار وہ سب کچھ ماہشان کے لئے کرنا چاہتا تھا ۔۔۔
کچھ سوچتے ہوئے وہ اک دم کمرے سے باہر نکلا اور سیدھا ماہشان کے دروازے پر رک گیا ۔۔۔۔
رات کافی ہوگئ تھی لیکن اسے اس وقت پرواہ کہاں تھی۔۔۔ دروازے پر رک کر اس نے اپنے دونوں ہاتھ دروازے پر رکھ لیے ۔۔۔
وہ کیا تھا گھبراہٹ تھی۔۔۔
غصہ تھا ۔۔۔۔۔
بیچینی تھی ۔۔۔
درد تھا ۔۔۔ یا کہ سکتے ہیں یہ سب تھا وہ آنکھیں بند کیے دونوں ہاتھ دروازے سے لگائے کھڑا رہا ۔۔۔۔
اے میرے اللّٰہ میں نہیں جانتا میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے لیکن میں یہ ضرور جانتا ہوں یہ سب آپکی ہی مرضی سے ہو رہا ہے اگرچہ اس میں آپکی مرضی ہے تو میرے دل کو سکون بخش دیں میں آپکی رضا میں راضی اور اگر اس میں آپکی رضا نہیں تو مجھے اس سب سے بچالیں ۔۔۔۔
میں تو کچھ نہیں جانتا سب سے بہتر آپ ہی جانتے ہیں مجھ پر کرم کریں میری مدد کریں ۔۔
اک لمبا سانس لیکر اسنے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا ۔۔۔۔
کھانہ کھانے کہ بعد وہ اپنے کمرے میں آگئ تھی یوں کسی غیر کے گھر رہنا اسے بالکل اچھا نہیں لگ رہا تھا وہ کہیں چلے جانا چاہتی تھی چھپ جانا چاہتی تھی ۔۔۔
خودکشی حرام تھی اگر اسے خدا کا خوف اور خدا کی رحمت کی امید نہ ہوتی تو وہ کب کا یہ قدم اٹھا چکی ہوتی ۔۔۔
مسلمان مشکل میں گھبرایا نہیں کرتے اپنی سوچ کے تسلسل کو ماہشان نے یہ کہ کر توڑا
مجھے بالکل بھی اپنے رب کی ذات سے ناامید نہیں ہونا چاہیے وہ ضرور کوئ راستہ نکالے گا بے شک مشکل کے ساتھ آسانی ہے مجھے بس ہمت اور صبر سے کام لینا ہوگا ۔۔۔۔
اسی لمحے اس کی آنکھ سے اک آنسوں
بہ گیا ۔۔۔
اے میرے اللّٰہ مجھ پر اپنا کرم کردے میں تھک گئ ہوں لیکن نا امید نہیں ہوں۔۔۔ میں جانتی ہوں آپ نے مجھ پر بڑا کرم کیا ہے آپ نے مجھے اندھیرے سے نکال کر روشنی عطا کی ۔۔
آپ نے ہی میرے دل کو اپنے راستہ پر چلایا آپکاجتنا شکر کروں کم ہے
الحمدللہ رب العالمین
الحمدللہ رب العالمین
الحمدللہ رب العالمین
لیکن میرے رب میں تکلیف میں ہوں میری مدد کر مجھے ہمت دے مجھے آگے کا راستہ دکھا مجھے اکیلا نہ چھوڑنا میرا تو آپ کے سوا کوئ بھی نہیں ۔۔۔
اور وہ وہیں زمیں پر لیٹ گئ آنسوں لگا تار اسکی آنکھوں سے گر رہے تھے ۔۔۔
اسے کیا خبر تھی کوئ اور بھی اسی حالت میں اس کے دروازے پر بڑے ضبط سے کھڑا ہوا ہے بلا شبہ وہ دونوں اک دوسرے کا سہارا تھی درد کی دوا تھے لیکن دونوں ہی اس بات سے انجان تھے۔۔۔۔
جاری ہے
شیخ زادی