غزل
روز و شب حسن رخ یار پہ حیراں ہونا
ہے محبت میں یہی صاحب ایماں ہونا
سانحہ یہ بھی عجب عشق میں مجھ پر گزرا
میری امید کے گلشن کا بیاباں ہونا
حسن کے ناخن تدبیر سے کیا مشکل ہے
عشق کے عقدۂ دشوار کا آساں ہونا
قطرۂ اشک کی چلمن سے نگہ نے دیکھا
ان کے ہونٹوں پہ تبسم کا نمایاں ہونا
اک نئی طرز جفا عشق میں ایجاد ہوئی
اس نے سیکھا ہے جفاؤں پہ پشیماں ہونا
کچھ سمجھ میں نہیں آتا یہ محبت کیا ہے
ان کو پا کر بھی انہیں کے لئے حیراں ہونا
رات بھر میری نگاہوں نے یہ منظر دیکھا
چاند کا ابر میں چھپ چھپ کے نمایاں ہونا
میں نے کچھ فیض ہر استاد سے پایا ہے جلیلؔ
تب کہیں جا کے میسر ہے سخنداں ہونا
جلیل قدوائی