روشنی گو کسی کی دی ہوئی ہے
چاند نکلا تو چاندنی ہوئی ہے
ہوش میں پھر سے آگئی دنیا
رات بھر یوں لگا کہ پی ہوئی ہے
مدتوں بعد آج میں سنورا
یوں لگا زندگی نئی ہوئی ہے
ایک پل میں وہ کھل گیا ہم پر
جس سے پل بھر ہی دوستی ہوئی ہے
ایسا لگتا ہے آخری حسرت
اس کے دل میں کہیں چھپی ہوئی ہے
آئنہ صاف ہو بھی تو کیا ہو
گرد سی ذہن پر جمی ہوئی ہے
ڈھل چکا ہے وہ آفتاب مگر
چھت مری آج تک تپی ہوئی ہے
دھول بیٹھی نہیں ہے سالوں سے
آنکھ جس راہ پر جمی ہوئی ہے
اگلی نسلوں کے واسطے ہے وہ
بات عابد کی جو کہی ہوئی ہے
عابد رشید