*رومانوی، وجودی اور مارکسی انتقاد کے تحت نظم*
*”مجھ سے پہلی سی محبت” کا جاٸزہ*
تحریر آصف علی آصف
فیض احمد فیض کی مشہور نظم "مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ” کو اگر ہم رومانوی (Romantic)، وجودی (Existential) اور مارکسسٹ (Marxist) تنقید کے امتزاج میں دیکھیں تو یہ نظم فرد کے داخلی جذبات، وجودی کشمکش اور سماجی ناانصافی کے خلاف ایک اجتماعی احتجاج کی علامت بن جاتی ہے۔ یہ ایک ایسی تخلیق ہے جو محبت کی کلاسیکی جمالیات سے شروع ہو کر حقیقت کی تلخیوں میں تحلیل ہوتی ہے اور آخر میں ایک اجتماعی انقلابی شعور میں ڈھل جاتی ہے۔
دلچسپ پہلو یہ نظرآتا ہے کہ نظم کا موضوع تین تغیرات طے کرتا ہے اور یہی تین فلسفے اور ادبی تنقیدی نظریات اسی زمانی ترتیب سے عالمی ادبی منظرنامے میں وارد ہوۓ تھے۔حرکیاتی تسلسل کچھ یوں رہا:
*رومانویت ۔۔۔۔۔> وجودیت ۔۔۔۔۔۔> مارکسیت*
*۱۔رومانوی تنقید:*
*محبت اور حسن کی مثالی دنیا*
نظم کا آغاز ایک انتہائی رومانوی فضا میں ہوتا ہے جہاں محبوب کی محبت کو زندگی کی روشنی اور حسن کی معراج کے طور پر دیکھا گیا ہے:
"مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ”
یہ مصرع اپنی بنیاد میں رومانوی جذباتیت کا حامل ہے کیونکہ رومانویت میں محبت کو زندگی کی سب سے بڑی حقیقت سمجھا جاتا ہے۔ شاعر کی ابتدائی سوچ میں محبوب کی موجودگی کو ہی زندگی کے حسن اور روشنی کا سرچشمہ قرار دیا گیا ہے:
"میں نے سمجھا تھا کہ تو ہے تو درخشاں ہے حیات”
یہاں محبت کو ایک جمالیاتی اور روحانی تجربہ سمجھا گیا ہے جو کلاسیکی رومانویت کی خصوصیت ہے۔ شاعر کے نزدیک محبوب کی قربت دنیا کی تمام خوشیوں کا بدل تھی اور یہ تصور رومانوی شاعری کے عروج کی نمائندگی کرتا ہے جہاں محبوب کی محبت انسان کی تکمیل کے لیے کافی سمجھی جاتی ہے۔
*۲۔ وجودی تنقید:*
*محبت کی شکست اور حقیقت کی تلخیاں*
مگر نظم ایک موڑ پر آ کر مکمل تبدیلی کا شکار ہو جاتی ہے جہاں فرد کی ذاتی محبت کا خواب ٹوٹ کر حقیقت کے کربناک شعور میں تبدیل ہو جاتا ہے:
"اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا”
"راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا”
یہاں نظم وجودی فلسفے میں داخل ہو جاتی ہے جہاں فرد اپنی ذاتی محبت کے دائرے سے نکل کر ایک وسیع تر حقیقت سے ٹکرا جاتا ہے۔ وجودیت کے مطابق انسان اپنی حقیقت خود تخلیق کرتا ہے اور اسے دنیا کی تلخیوں کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔
"تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے”
یہ مصرع وجودی بحران (Existential Crisis) کی نمائندگی کرتا ہے۔یہ اس لمحے کی علامت ہے جب شاعر کو احساس ہوتا ہے کہ اس کی ذاتی محبت اس وسیع تر کائنات کے دکھوں کے آگے بے بس ہے۔ یہاں سارتر (Sartre) اور کیرکیگارڈ (Kierkegaard) جیسے فلسفیوں کے نظریات کی جھلک ملتی ہے جہاں فرد اپنے خیالی نظریات کو چھوڑ کر حقیقت کا سامنا کرتا ہے۔
*۳۔ نیو مارکسسٹ تنقید:* *اجتماعی کرب اور انقلابی شعور*
نظم کے آخری حصے میں محبت کا کلاسیکی تصور ختم ہو کر ایک سماجی اور انقلابی بیانیے میں تبدیل ہو جاتا ہے:
"بے شمار چمکدار آنکھیں، بے شمار آنسو”
یہاں نیو مارکسسٹ تنقید کے مطابق فرد کی ذاتی محبت اجتماعی طبقات کی حالت زار میں ضم ہو جاتی ہے۔ مارکسزم کے تحت، ادب کو محض ذاتی جذبات کا اظہار نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسے طبقاتی کشمکش اور سماجی ناانصافیوں کے خلاف آواز بھی بننا چاہیے۔
یہی وجہ ہے کہ شاعر محبوب کی محبت کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کے دکھوں اور استحصال زدہ طبقات کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں:
"جسم پر قید ہیں زنجیریں، بدن زخمی ہے”
"سینکڑوں سال کی تاریخ کے سائے تلے”
یہاں شاعر کی نظر محنت کش طبقے، مزدوروں، مظلوموں اور تاریخ کے استحصال زدہ کرداروں پر پڑتی ہے اور وہ اپنے ذاتی جذبات کے بجائے اجتماعی انسانی کرب کو زیادہ اہمیت دینے لگتے ہیں۔
*نتیجہ:*
*نظم کا ادبی اور فکری ارتقا*
یہ نظم ایک فکری سفر کی نمائندگی کرتی ہے جو محبت کے جمالیاتی رومانی تصور سے شروع ہو کر وجودی بحران سے گزرتی ہے اور پھر ایک انقلابی مارکسسٹ شعور میں تبدیل ہو جاتی ہے۔
رومانویت نظم کے ابتدائی حصے میں نمایاں ہے جہاں محبوب کی محبت کو سب سے زیادہ قیمتی چیز سمجھا گیا ہے۔
وجودیت اس وقت نمودار ہوتی ہے جب شاعر اپنی محبت سے باہر نکل کر دنیا کے تلخ حقائق کو دیکھتا ہے اور اسے احساس ہوتا ہے کہ دنیا کا درد اس کے ذاتی غم سے کہیں زیادہ گہرا ہے۔
نیو مارکسزم نظم کے آخری حصے میں غالب آتا ہے، جہاں محبت کا ذاتی جذبہ اجتماعی کرب اور سماجی استحصال کے خلاف ایک انقلابی بیانیے میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
یوں "مجھ سے پہلی سی محبت” ایک ایسی نادر تخلیق ہے جو مختلف ادبی اور فکری نظریات کو یکجا کرتی ہے اور اردو شاعری میں ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔
آصف علی آصف