رونق ارض و سما ہے مجھ میں
میری وسعت سے خلا ہے مجھ میں
ایک طوفان بلا ہے مجھ میں
یہ جو اک ذہن رسا ہے مجھ میں
دھڑکنیں شور سلاسل جیسی
کوئی زنجیر بہ پا ہے مجھ میں
کیوں میں ہر شخص کی نظروں میں ہوں
کیا ہے وہ جو کہ نیا ہے مجھ میں
میری آواز سے آواز ملا
یوں ہی کیوں گونج رہا ہے مجھ میں
تجھ کو سوچا تو یہ محسوس ہوا
اک چراغ اور جلا ہے مجھ میں
یہ سبب ہے میری خاموشی کا
ایک ہنگامہ بپا ہے مجھ میں
جو الگ مجھ میں نظر آتا ہے
وہ قمر عکس ذکا ہے مجھ میں
اقبال قمر