روکے کچھ دیر غبار آنکھ کا دھو لیں ہم بھی
اپنے بھی دل کو ذرا آج ٹٹولیں ہم بھی
نام لے کر کبھی ہم کو بھی پکارے کوئی
اپنا دروازہ کسی روز تو کھولیں ہم بھی
لفظ و معنی بھی ابھرنے لگے سناٹے سے
در و دیوار جو بولے ہیں تو بولیں ہم بھی
جی میں آتا ہے کبھی ان کا تصور لے کر
کوئی جاتا ہو کہیں ساتھ میں ہولیں ہم بھی
ہو اجازت تو ترے ہجر کی تسبیح میں دل
جو دھڑکتا ہے اسے آج پرو لیں ہم بھی
کرار نوری