رہا پیش نظر حسرت کا باب اول سے آخر تک
پڑھی کس نے محبت کی کتاب اول سے آخر تک
اشارہ تک نہ لکھا کوئی اس نے ربط باہم کا
بہت بے ربط ہے خط کا جواب اول سے آخر تک
میسر خاک ہوتا زندگی میں لطف تنہائی
رہے دو دو فرشتے ہم رکاب اول سے آخر تک
خوشی میں بھی محبت دشمن صبر و سکوں نکلی
رہا دل میں وہی اک اضطراب اول سے آخر تک
غلط کوشی کی عادت نے اثر پیدا کیا ایسا
غلط نکلا گناہوں کا حساب اول سے آخر تک
مجھے لے آئی ہے عمر رواں کن خارزاروں میں
ہوا ہے چاک دامان شباب اول سے آخر تک
مجال گفتگو پائی تو اب کیوں مہر بر لب ہے
سنا دے او دل غفلت مآب اول سے آخر تک
اندھیرے میں تلاش دل اگر ہوتی تو کیا ہوتی
شب تاریک تھا دور شباب اول سے آخر تک
دہان زخم سے بھی جوشؔ حال دل سنا دیکھا
نمک پاشی ہی تھا ان کا جواب اول سے آخر تک
جوش ملسیانی