رہا کرتا ہے اکثر تذکرہ بربادئی دل کا
میں بگڑا ہوں تو افسانہ بنا ہوں ان کی محفل کا
نشانہ بن گیا بیٹھے بٹھائے تیرِ قاتل کا
چلو چھٹی ہوئی، جھگڑا مٹا، قصہ گیا دل کا
قیامت کی کشش رکھتے ہیں ذرے خاکِ ساحل کے
کہ موجیں آخری دم تک بھی دم بھرتی ہیں ساحل کا
تھکے ماندے مسافر آ پڑے آرام کی خاطر
بڑا احسان ہے ان غم زدوں پر پہلی منزل کا
دلِ مجروح اپنے زخم پر پھاہا لگانے کو
کنارہ چاہتا ہے دامنِ شمشیر قاتل کا
مرا دل ٹوٹ جائے گا نہ کھینچ اس کو نہ کھینچ اس کو
ترا ناوک نہیں ظالم یہ ٹکڑا ہے مرے دل کا
مرے احباب بعدِ مرگ اس حیرت سے تکتے ہیں
کہ جیسے میرے ماتھے پر ہے لکھنا نام قاتل کا
انہیں پردا نہیں ہے تو نہ ہو یہ کام ان کا ہے
ہمیں تو حال کہہ دینا کبھی اپنا کبھی دل کا
دلِ مشتاق افسرؔ کو اگر حیراں بنایا ہے
تو رکھیں آپ اسے آئینہ کر کے اپنی محفل کا
افسر صدیق امروہوی