رہیں اب اہلِ چمن منتظر خزاں کے لیے
نہ سوچا کچھ بھی بہاروں میں گلستاں کے لیے
جو وقت ہو نہ سکا ان کے آستاں کے لیے
نہ زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے
ہمیشہ سرورقِ زندگی پہ نقش رہا
تمہارا نام زمانے میں ہر زباں کے لیے
مری جبیں میں وہ سجدے تڑپ رہے ہیں ابھی
کیے ہیں میں نے فراہم جو آستاں کے لیے
میں ان سے کہہ گیا اظہارِ شوق میں سب کچھ
رکھی نہ دل میں کوئی بات رازداں کے لیے
ہمیں بہار و خزاں سے غرض گلستاں کی
نہ ہم قفس کے لیے ہیں نہ آشیاں کے لیے
عیش ٹونکی