غزل
رہی اگرچہ نہ مجھ کو کبھی رلائے بغیر
قرار دل کو نہیں تیری یاد آئے بغیر
کوئی یہ حسن کی دیکھے تو شان بے تابی
رہا گیا نہ مرے دل میں ان سے آئے بغیر
ہنسا ہنسا کے مجھے اور خود بھی ہنس ہنس کر
رہے نہ خاک میں میرا وہ دل ملائے بغیر
اگرچہ شرم نے کہنے دیا نہ کچھ منہ سے
رہے نہ آہ پہ میری وہ سر اٹھائے بغیر
کمال جذب محبت سے داستاں میری
تری زباں پہ ہے میری زباں پہ آئے بغیر
گداز قلب وہ نعمت ہے جو نہیں ملتی
بشر کو آنکھ سے خون جگر بہائے بغیر
جلا کے آتش غم سے اسے بنا اکسیر
کہ سنگ و خشت سے بد تر ہے دل جلائے بغیر
یہ راز وہ ہے جسے میں ہی جانتا ہوں جلیلؔ
کہ دل میں وہ اتر آئے نظر میں آئے بغیر
جلیل قدوائی