رہے گا پیاسوں سے پانی کا فاصلہ کب تک
رہے گا گھر مرا میدان کربلا کب تک
ترے پڑوس کے پتھر کبھی تو جاگیں گے
رہے گا کانچ کے محلوں میں تو خدا کب تک
یہ زرد زرد سی مدقوق کونپلوں کے لئے
مرے بدن کا رہے گا شجر ہرا کب تک
چھپا سکوں گا کہاں تک میں اپنا عریاں بدن
تنی رہے گی اندھیروں کی یہ ردا کب تک
کسی کی زلف کے بادل کے پاس بیٹھا ہوں
یہ دیکھنا ہے کہ برسے گی یہ گھٹا کب تک
نہ چھیڑے گا کوئی سیلاب آرزو ساغرؔ
ٹکے گا آنکھ کی پتلی پہ آبلہ کب تک
ساغر خیامی