غزل
زاویہ ہونٹوں کا وہ دل کش بناتا کس طرح
روح زخمیدہ بہت تھی مسکراتا کس طرح
انگلیاں بھی قوت بینائی رکھتی ہیں بہت
میں کسی کے جسم کو یہ سچ بتاتا کس طرح
کل مرے بچے بھی آ سکتے ہیں خوشبو کے لیے
شہر گل میں زہر کے کانٹے بچھاتا کس طرح
فن کی دولت بڑھ گئی تو دل کے ٹکڑے ہو گئے
میں سمندر بن گیا تو گھر بچاتا کس طرح
میں ہوں اک پتھر مگر دست ہنر میں رہ گیا
شیش محلوں کی ہے قسمت کیا بتاتا کس طرح
قیس رامپوری