غزل
زخم تو بہت آئے پھر بھی حوصلہ رکھا
عمر بھر محبت میں ہم نے دل بڑا رکھا
جس نے ایک لمحہ بھی تجھ سے واسطہ رکھا
اپنے آپ کو خود سے عمر بھر جدا رکھا
برگ خشک کی صورت لوگ ہو کے آوارہ
سوچتے ہیں سرسر کا نام کیوں صبا رکھا
جب اسے نہ آنا تھا پھر یہ کس توقع پر
ہم نے گھر کا دروازہ رات بھر کھلا رکھا
دل غم زمانہ کی دسترس میں کیا آتا
پتھروں کی زد پر خود ہم نے آئنہ رکھا
عشق کو سلیقے سے کچھ ہمیں نے برتا ہے
ورنہ قربتوں میں یوں کس نے فاصلہ رکھا
یاد کر کے روئے گا تو سلوک غیروں کا
تو نے خاورؔ اپنوں سے کچھ جو واسطہ رکھا
رحمان خاور