Zard Pattoo ki Yeh Rut Kia Kia na Samjhayee Mujhy
غزل
زرد پتوں کی یہ رت کیا کیا نہ سمجھائے مجھے
ہر تھکا ہارا شجر آئینہ دکھلائے مجھے
دیر تک مہکا کیا ویرانۂ کنج خیال
اس سے مل کے موتیے کے پھول یاد آئے مجھے
اپنی گہرائی کا مجھ کو خود بھی اندازہ نہیں
خود میں جب ڈوبوں سمندر سا نظر آئے مجھے
گردش تقدیر کے کچھ ہیں مسلسل دائرے
ہر جنم میرا غلط تحریر کر جائے مجھے
حسرت تعمیر میں مٹی مری برباد ہو
جرأت اظہار دیواروں میں چنوائے مجھے
میری ہستی کو وہ جیسے چاہے ویسے حل کرے
ضرب دے مجھ کو کبھی تقسیم کر جائے مجھے
نسیم سید
Naseem Syed