غزل
زلف تیری نے پریشاں کیا اے یار مجھے
تیری آنکھوں نے کیا آپ سا بیمار مجھے
دل بجھا جائے ہے اغیار کی شورش پہ مرا
سرد کرتی ہے تری گرمئ بازار مجھے
عقل ہی موجب تکلیف ہوئی ہے ناداں
کر گئی بے خبری آ کے خبردار مجھے
تخت اور چتر سلاطیں کو مبارک ہووے
بس ہے کوچے میں ترے سایۂ دیوار مجھے
جوں مثال اس کی نمودار ہوئی توں ہی بیاںؔ
طپش دل نے کیا خواب سے بیدار مجھے
بیاں احسن اللہ خاں