زمانے سے داد ِہنر چاہتی ہوں
یہ ممکن نہیں ہے مگر چاہتی ہوں
گزارا تھا میں نے جہاں اپنا بچپن
وہ گلیاں وہ کُوچے وہ گھر چاہتی ہوں
کچھ آنسو تو رہنے دو آنکھوں میں میری
میں تھوڑا سا زاد ِسفر چاہتی ہوں
محبت جہاں رقص کرتی ہو ہر پل
میں خوابوں کا ایسا نگر چاہتی ہوں
وہ دشتِ تمنا ہو یا کُوچہ ء دل
ہر اِک رہگزر میں شجر چاہتی ہوں
ہر اِک در پہ جُھکنے سے انکار کر دے
میں شانوں پہ ایسا ہی سر چاہتی ہوں
تمہارے بِنا جی نہیں پاؤنگی میں
نکل جائے دل سے یہ ڈر چاہتی ہوں
مجھے مال و دولت کی خواہش نہیں ہے
محبت کے شام و سحر چاہتی ہوں
میں جب چاہوں دیدار کر لوں نبی کا
تخیُل میں اتنا اثر چاہتی ہوں
شاہدہ عروج خان