زمین میری رہے گی نہ آئنہ میرا
کہ آزمانے چلا ہے مجھے خدا میرا
مرے طلسم سے آزاد بھی نہیں لیکن
وہ پھول پہلی نظر میں ہوا نہ تھا میرا
نعیم بصرہ و بغداد ہارنے کے بعد
مرا وجود بھی شاید نہیں رہا میرا
وہ میرے پاس رہے یا کہیں چلا جائے
رہے گا اس کے خیالوں سے سلسلہ میرا
کسی کی کھوج میں نکلا تھا بے ارادہ میں
بدن نڈھال تھا سر گھومتا ہوا میرا
نہیں ہے اب مجھے انجام کی کوئی پروا
بڑھا دیا ہے محبت نے حوصلہ میرا
ہوا ہے قطع مسافت کا سلسلہ جاری
میں رک گیا تو بدن ٹوٹنے لگا میرا
یقیں نہیں ہے مگر نقش ہے مرے دل پر
کہ اک پری نے بنایا ہے زائچہ میرا
وہ بار بار پلٹتا ہے دور جا جا کر
سو ٹوٹ ٹوٹ کے جڑتا ہے رابطہ میرا
نظر کی حد پہ جو اک نجم خواب ہے ساجدؔ
وہی چراغ ہے اس کا وہی دیا میرا
غلام حسین ساجد