Zindagi ab is qader saffak ho jayee gi kia
غزل
زندگی اب اس قدر سفاک ہو جائے گی کیا
بھوک ہی مزدور کی خوراک ہو جائے گی کیا
میرے قاتل سے کوئی اے کاش اتنا پوچھ لے
یہ زمیں میرے لہو سے پاک ہو جائے گی کیا
ہر طرف عریاں تنی کے جشن ہوں گے روز و شب
اس قدر تہذیب نو بے باک ہو جائے گی کیا
بڑھ گیا سایہ اگر قد سے تو بڑھنے دیجئے
خاک اڑ کر ہمسر افلاک ہو جائے گی کیا
قید ہستی سے بمشکل ہو سکا تھا میں رہا
میری مٹی کاسہ گر کا چاک ہو جائے گی کیا
ساری دنیا ڈھل رہی ہے مغربی تہذیب میں
بے حیائی اب مری پوشاک ہو جائے گی کیا
واقعی دریائے غم کے تیز دھاروں میں رضاؔ
زندگی میری خس و خاشاک ہو جائے گی کیا
رضا مورانوی Raza moranvi