غزل
زندگی تو نے عجب بات یہ بتلائی ہے
اک قیامت ہے بپا شہر میں رسوائی ہے
خلوت جان میں گزری ہے مری عمر رواں
آپ کہتے ہیں کہ بے نام سزا پائی ہے
آپ کو حال بتاؤں تو بتاؤں کیسے
آپ کے شہر میں ہر شخص تماشائی ہے
ایک دن کیف کے عالم میں پکارا اس نے
یہ وہی دشت ہے جس دشت میں تنہائی ہے
نہ تمنا نہ تماشا نہ کوئی آہ بھری
پھر بھی آنکھوں میں مرے درد کی گہرائی ہے
غم ہزاروں تھے کہ اک اور محبت کر لی
ایک رسوا کو ملی مفت میں رسوائی ہے
میری دنیا میں خموشی کے علاوہ نہیں کچھ
آخری وقت میں یہ بات سمجھ آئی ہے
اس نے جکڑا ہے مجھے کانٹوں کے بستر سے عمودؔ
پھر تبسم بھرے ہونٹوں سے قسم کھائی ہے
عمود ابرار احمد