زندگی جب تری حدت کا گماں ہوتا ہے
مجھ کو اشجار سے نسبت کا گماں ہوتا ہے
اک ہمیں کو نہیں دکھتا کوئی اپنے جیسا
آئینے کو بھی شباہت کا گماں ہوتا ہے
مانگ لے گر کبھی مخلوق اثاثوں کا حساب
منصفِ وقت کو تہمت کا گماں ہوتا ہے
دیکھ ہم دشت نشینوں کو سمندر نہ دکھا
ہم کو وسعت پہ بھی وحشت کا گماں ہوتا ہے
آئے تاخیر سے جب اس کا جوابی پیغام
مجھ کو جذبوں میں خیانت کا گماں ہوتا ہے
کیونکہ ہم لوگ اداسی کے دبستان سے ہیں
مسکرائیں تو بغاوت کا گماں ہوتا ہے
تیری فطرت نے تری شکل بدل کر رکھ دی
عاجزی پر بھی رعونت کا گماں ہوتا ہے۔
فاصلے شوق سے رکھ تو مگر اتنے بھی نہیں
جتنی دوری پہ عداوت کا گماں ہوتا ہے
بزم میں اس لیے رکھتا ہوں میں اونچی آواز
کیونکہ سرگوشی پہ غیبت کا گماں ہوتا ہے
تجھ میں بڑھ کر ہے اداکاری وفاداری سے
تجھ پہ دشمن کی اعانت کا گماں ہوتا ہے
لازماً تو کسی فرعون سے ٹکر لے گا
بولنے پر ترے لکنت کا گماں ہوتا ہے
دور والوں کو بھی رکھتا ہے جو نزدیک حسن
قرب ہوتا نہیں قربت کا گماں ہوتا ہے
احتشام حسن