loader image

MOJ E SUKHAN

اردو شعراء

20/04/2025 12:29

زندگی سے حسیں اداسی ہے

غزل

 

زندگی سے حسیں اداسی ہے
یہ مری ہم نشیں اداسی ہے

کب سے پندار میں مقید ہے
کیسی پردہ نشیں اداسی ہے

لحظہ لحظہ اسے کشید کرو
کہ مے انگبیں اداسی ہے

جرعہ جرعہ پلا مجھے ساقی
من ہرن ساتگیں اداسی ہے

کعبۂ دل میں ہے جو محو طواف
جہاں تاب جبیں اداسی ہے

پربتوں وادیوں میں بستی ہے
جنگلوں کی مکیں اداسی ہے

وہ تہہ آب جل پری سی ہے
میری صحرا نشیں اداسی ہے

دیکھ کر لا رہی ہے ہستی میں
جان جاں جا گزیں اداسی ہے

سن عدم سے وجود تک ہر جا
خانماں میں مکیں اداسی ہے

جادہ و سنگ میل و مسکن میں
رہبروں کا یقیں اداسی ہے

دیپ بیم و رجا کا جاں گل ہو
دیکھنا تم وہیں اداسی ہے

ضرب اک خول کی فصیلوں میں
حاشیوں کے قریں اداسی ہے

جوہر ہست مرزا غالبؔ تھی
آج خاک بریں اداسی ہے

واں خوشی کی نمو محال سی ہے
اس کے دل کی زمیں اداسی ہے

بانو صائمہ

Email
Facebook
WhatsApp

مزید شاعری

رباعیات

غزلیات

نظم